ہوناور:22؍جنوری (ایس اؤ نیوز)کالی مرچ کی رانی کےلقب سےمشہور رانی چنا بھئیرا دیوی کی دلیری و بہادری کی تاریخ بیان کرنےوالا قلعہ گیروسوپا، کانورکے گھنے جنگلات میں دیکھا جاسکتاہے۔
ہوناور اور ساگر تعلقہ کی سرحد سے متصل یہ قلعہ ،کانور پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔ 1552سے 1606عیسوی تک کل 54برس تک رانی چنا بھئیرا دیوی نے ہائیوے ، تلوا، کونکن علاقوں کی نگرانی کے لئے گیر سوپا کو مرکز بناتے ہوئے اسی کانور قلعہ سے حکومت کی تھی۔ گرچہ رانی نے اپنا صدر مقام گیرسوپا کو ہی بنایاتھا لیکن اپنا خفیہ دھن، خفیہ فوج اور مشکلات میں اپنی خفیہ رہائش کے لئے اسی قلعہ کومنتخب کیاتھا۔ رانی چنا بھئیرا دیوی اس سہ رخی قلعہ کو جو قریب ایک ہزار فٹ کی گہری وادی میں ہونے سے حفاظتی طورپر ایک بہتر محفوظ مقام سمجھتی تھی۔ 1559میں اپنی 2500فوج لےکر پرتگیز یوں نے ہوناور کا گھیراؤ کرتےہوئے قلعہ پر قبضہ کرنےکی کوشش کی تو رانی بھئیرا دیوی کی فوج نے قلعہ کے اوپر سے بڑے بڑے پتھروں سے حملہ کرتےہوئے پرتگیزی فوج کو پسپا کیا تھا۔
رانی بھئیرا دیوی کالی مرچ کی ذخیرہ اندوزی کےلئے اسی کانور قلعہ کا استعمال کرتی تھیں۔ اس زمانےمیں یہاں کالی مرچ کا بیوپار اتنا زیادہ تھا کہ ملناڈ سے جب کالی مرچ خرید کر شراوتی کو عبورکرنے والے مقام کو ’کالی مرچ کا شہر‘ کہا جاتا تھا۔ آخر کار 1606میں کیلدی خاندان کے سنئیر وینکٹپا نایک اور بیلگی کا راجہ دونوں متحد ہوکر دلوائی لنگنا نامی سردار کے ذریعے رانی چنا بھئیرا دیو ی کو قید کرتےہیں اور پرانی ائیکری قلعہ میں حراست میں رکھا جاتاہے جہاں رانی اپنی آخری سانس لیتی ہے۔
آج اس رانی چنا بھئیر ا دیو ی کا کانور قلعہ اپنی زبوں حالی بیان کررہاہے۔ قلعہ کے اندر جہاں تہاں جھاڑجھنکار ہیں، دیوار ٹوٹ کر بھیانک منظر پیش کرتی ہیں۔ فاریسٹ افسران یہاں جانے والوں کو منظوری دینے میں پس وپیش کرتے ہیں،قلعہ کا باب الداخلہ خستہ ہوچکا ہے، دیواریں بوسیدہ ہوچکی ہیں، کلی طورپر کہاجائے تو قلعہ اپنی بربادی کے دن گن رہاہے۔ وہاں نظر آنے والے کنوئیں ، سرنگ کے راستے وغیرہ کو کافی نقصان پہنچاہے۔ باشعور عوام نے ایسی ایک تاریخی عمارت پر رتی برابر توجہ نہ دینا ہماری بدنصیبی ہونے کا خیال ظاہر کیاہے۔
قلعہ یتیم ہوگیا ہے: ایک بہادر رانی کی قوت کا مظہر کانور قلعہ آج یتیم ہوگیاہے۔ چوروں ،ڈکیتوں نے قلعہ جو بھی اشیاء انہیں لے گئے ہیں جس کےنتیجےمیں خستہ حالت کو پہنچ گیا ہے۔ نہ آثار قدیمہ کا محکمہ ، نہ ثقافتی محکمہ اور نہ کوئی تاریخی اکیڈمی نے آج تک کوئی توجہ نہیں دینے سے یتیمی کی حالت کو پہنچ گیا ہے۔ وہاں موجود چوب پرچم کو خزانہ کی لالچ میں ڈھا دیاگیاہے، شیولنگ کی بے حرمتی کی گئی ہے اور جین مندر گرنے کے درپے ہے۔