ہوناورمیں پریش میستا کی مشتبہ موت کوگزرگئے2سال۔ سی بی آئی کی تحقیقات کے باوجود نہیں کھل رہا ہے راز۔ اشتعال انگیزی کرنے والے ہیگڈے اور کرندلاجے کے منھ پر کیوں پڑا ہے تالا؟
ہوناور 7/ستمبر (ایس او نیوز) اب سے دو سال قبل 6دسمبر کو ہوناور میں دو فریقوں کے درمیان معمولی بات پر شرو ع ہونے والا جھگڑا باقاعدہ فرقہ وارانہ فساد کا روپ اختیار کرگیا تھا جس کے بعد پریش میستا نامی ایک نوجوان کی لاش شنی مندر کے قریب واقع تالاب سے برآمد ہوئی تھی۔ اس مشکوک موت کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر پورے ضلع شمالی کینرا میں نہ صرف تناؤ پید اکیا گیا تھا بلکہ ہوناور، کمٹہ اور سرسی میں پر تشددمظاہرے بھی کیے گئے تھے۔بی جے پی کے ارکان پارلیمان اور ارکان اسمبلی نے اشتعال انگیز بیانات دے کر ماحول کو مزید گرمایاتھا۔ اس وقت سدارامیا کی قیادت والی ریاستی حکومت نے بی جے پی کی مانگ پر یہ معاملہ سی بی آئی کے حوالے کیاتھا۔
فرقہ وارانہ کشیدگی: اس واقعے کے بعد ہوناور میں کئی دنوں تک بہت ہی زیادہ فرقہ وارانہ کشیدگی بنی رہی اور آج تک اس کی چنگاریاں پرامن ماحول کی راکھ میں دبی ہوئی محسوس کی جاتی ہیں، کیونکہ سی بی آئی تحقیقات جاری رہنے کی بات تو ہورہی ہے مگر اس مشکوک موت کے پیچھے کیا راز ہے اسے ظاہر نہیں کیاجارہا ہے۔ اس سے دوسال پہلے لوگوں کے دماغ میں جو بات بیٹھی تھی کہ یہ فرقہ وارانہ قتل ہے، وہی گمان ابھی بھی بنا ہوا ہے۔ اوراس موت کے لئے مسلم فرقے کو ہی ذمہ دار سمجھا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دوسال پہلے حالات بگڑنے کے بعدشہر میں پولیس بندوبست کے طور پر سڑک کے ایک کنارے دیودار کے درختوں کے نیچے پولیس ویان کو جہاں کھڑا کیا گیا تھا وہ آج بھی اسی مقام پر کھڑی ہوئی نظر آتی ہے۔
اب منھ پر لگے ہیں تالے: دوسری طرف اس مسئلے پر فرقہ وارانہ نفرت بھڑکانے والے بی جے پی کے شوبھا کرندلاجے اور اننت کمار ہیگڈے جیسے اراکین پارلیمان اور دیگر لیڈران انتخابی فائدہ اٹھانے کے بعد اب اس معاملے میں منھ پر تالے لگائے گھوم رہے ہیں۔انصاف پسند عوام کا ایک طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ پریش میستا، ڈاکٹر چترنجن، تِمّپا نائک، یمونائک جیسے قتل کے معاملات میں بی جے پی کی دلچسپی متاثرین کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کے بجائے صرف اپنے لئے سیاسی مفاد حاصل کرنے تک محدود ہوتی ہے۔
کیونکہ مرکز اور ریاست میں برسراقتدار بی جے پی کے لیڈران سے پریش میستا کیس کے تعلق اگر کوئی کچھ پوچھے تو ان کے پا س رٹا ہوا ایک ہی جواب ہے کہ سی بی آئی جیسی ایک آزاد مرکزی تحقیقاتی ایجنسی تفتیش کررہی ہے، جو بھی حقیقت ہوگی وہ سامنے آکر رہے گی۔دوسری طرف حزب مخالف کے کارکنان اور لیڈران سے سوال کریں تو ان کاجواب یہ ہوتا ہے کہ پریش میستا معاملے کو سیاسی مفاد کے لئے استعمال کرکے ہمارے ہاتھ سے اقتدار چھین لینے والے بی جے پی لیڈران پوچھو۔ ہم اس معاملے میں کیوں سر درد مول لیں۔
کہاں ہیں انصاف دلانے والے: پریش میستا کی موت کے پس منظر میں کینرا رکن پارلیمان اننت کمار ہیگڈے نے گرجتے ہوئے کہاتھا کہ خون کے ایک ایک قطرے کو انصاف دلایاجائے گا۔ لیکن انتخابات ختم ہونے اور سی بی آئی کو معاملہ سونپ دئے جانے کے بعد اننت کمار ہیگڈے ہوناور سمیت ضلع کے کئی مقامات کا دورہ کرتے رہے ہیں اور بیانات بھی جاری کرتے رہے ہیں۔ مگر کبھی بھول کر بھی انہیں پریش میستاکی یاد نہیں آئی اور تحقیقات کے سلسلے میں ایک جملہ بھی ان کے منھ سے نہیں نکلا ہے۔اور تعجب اس بات پر ہے کہ اننت کمار کی آواز میں جھنڈ کی شکل میں احتجاج کے لئے سڑکوں پر اترنے والے مقامی پارٹی کارکنان میں اتنا بھی دم نہیں ہے کہ وہ اننت کمار سے تحقیقات کے بارے میں کوئی سوال کرکے دیکھیں۔
چابی کس کی مٹھی میں ہے: سوال یہ اٹھتا ہے کہ پریش میستا کے متاثرہ خاندان کو آخر انصاف کب ملے گا۔ پریش میستا سے خون اور خاندا ن کا رشتہ نہ ہونے کے باوجود اپنے لیڈروں کی اشتعال انگیزی کا شکار ہوکر سڑکوں پر اترنے اور فساد برپا کرنے کے مقدمات میں پھنسے ہوئے سیکڑوں نوجوان کب اس عذاب سے نکلیں گے۔ اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب بننے والی مشکوک موت کی اصل حقیقت اور راز کب کھل کر سامنے آئیں گے، تاکہ ہوناور کا ماحول واقعی پرامن ہوسکے اورحقیقی معنوں میں سابقہ آپسی بھائی چارگی کی فضا دوبارہ قائم ہوسکے۔
مگر ایسا لگتا ہے کہ ان سوالات کے جوابات جس الماری میں بند ہیں اس کی چابی سیاسی مفاد پرستی اور اشتعال انگیزی کرنے والے لیڈروں کی مٹھی میں بند ہے۔