پانچ مرتبہ رکن پارلیمان بننے کے بعد بھی پانچ پیسے کا ترقیاتی کام نہیں ہوا۔اننت کمار ہیگڈے کے خلاف ہندو لیڈر چکرورتی سولی بیلے کا حملہ
بنگلورو 28؍دسمبر (ایس او نیوز) اننت کمار ہیگڈے جو اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے ہر حلقے میں اعتراضات اور مذمت کا مرکز بنے ہوئے ہیں ان کے خلاف تبصرہ کرتے ہوئے ہندو دانشور اورنمو بریگیڈ؍یووا بریگیڈ کے بانی چکرورتی سولی بیلے نے سوال کیا ہے کہ اننت کمار کا ایجنڈہ اپنے حلقے کی ترقی ہے یا ہندوتوا کا پروپگنڈہ کرنے والی تقریر کرنا ہے؟
سولے بیلی نے کہا کہ اننت کمار ہیگڈے نے اپنے پارلیمانی حلقے میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا ہے، اوروہ کسی کام کے لائق بھی نہیں ہیں۔حالانکہ رکن پارلیمان کے طور پر ترقی کے بہت سارے منصوبوں پر عمل کرنے اور اپنے حلقے کو سیاحوں کی دلکشی کا مرکز بنانے کے بے شمار مواقع ان کے پاس موجود تھے، مگر انہوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔چکرورتی نے صاف لفظوں میں کہا کہ کوئی چاہے کتنی بار اسمبلی یا پارلیمنٹ کی سیٹ جیت جائے ، اگر وہ اپنے علاقے کی ترقی کے لئے کوشش نہیں کرتا تو پھر اس کا جیتنا اور نمائندگی کرنا فضول ہے۔
اپنے بیان کی مزید وضاحت کرتے ہوئے چکرورتی نے کہا کہ ضلع شمالی کینرا میں قدرتی وسائل کی بھرمار ہے ۔اس ضلع کو پہاڑی سلسلہ،ساحلی علاقہ ، ندیوں کے کنارے، آبشار، جنگلات وغیر ہ کی دولت سے قدرت نے مالامال کررکھاہے۔ مگر میں نے گزشتہ کچھ عرصے پہلے اس کے مختلف شہروں اور دیہاتوں کا دورہ کیا اور یہاں کے حالات دیکھے تو مجھے بہت ہی دکھ ہوا کہ پانچ پانچ مرتبہ پارلیمانی سیٹ جیتنے کے بعد اننت کمار ہیگڈے نے اس علاقے کی ترقی کے لئے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس ضلع کو ایک بہترین سیاسی لیڈر نصیب نہیں ہوا ہے۔بات صرف اننت کمار ہیگدے کی نہیں ہے ، ملیکا ارجن کھرگے ،دیشپانڈے اورکاگیری جیسے لیڈر بھی اس ضلع کو ترقی کے لحاظ سے اس مقام تک نہیں لے جاسکے، جہاں تک پہنچنا چاہیے تھا۔
چکرورتی نے کہا کہ مذہب سے لگاؤ الگ بات ہے اور صرف الیکشن کے پس منظر میں مذہبی جذبات کا استحصال کرنا دوسری بات ہے۔ گجرات کے الیکشن میں جس طرح نریندر مودی کے ترقیاتی ایجنڈے کے مقابلے میں کانگریس نے مذہب کا کارڈ کھیلا اور مندروں کے دورے شروع کیے ، بالکل اسی طرح اب کرناٹکا میں بھی سیاسی رنگ بدلتا جارہا ہے۔ سدارامیا جیسے لوگ مندروں میں جانے اور سوامی ویویکا نند کی جینتی منانے کی بات کرنے لگے ہیں۔مگر میرا ماننا یہ ہے کہ اس بار کا الیکشن مذہب، ذات پات اور طبقات کو الگ رکھ کر صرف کرناٹکا کی ترقی کو موضوع بناکر ہی لڑا جانا چاہیے۔اور میرا یہ پیغام بی جے پی، کانگریس اور جنتادل جیسی تمام سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کے لئے ہے۔ان سیاسی لیڈروں کو چاہیے کہ وہ اپنے شہر ، گاؤں اور علاقوں کے تعلق سے اپنے ترقیاتی منصوبے کے ساتھ عوام کے سامنے آئیں ، عوام کے دلوں کو توڑنے کے بجائے جوڑنے کی بات پر ووٹ طلب کریں۔پھر عوام جس کو اہل سمجھیں گے انہیں کامیابی سے سرفرا ز کریں گے۔