ہماچل میں ایک اور مسجد پر تنازعہ، انتظامیہ کی سخت کارروائی
کُلّو، یکم اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی) ہماچل پردیش میں مساجد کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ شملہ اور منڈی کے بعد اب کلو کے علاقے اکھاڑہ بازار میں واقع جامع مسجد کو بھی نشانہ بنایا گیا، جسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مشتعل ہجوم نے نعروں کے ساتھ مسجد کے انہدام کا مطالبہ کیا۔ حالات اس وقت مزید کشیدہ ہو گئے جب پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کی، جس پر مظاہرین نے پولیس کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کی۔ تاہم، اس بار ضلع انتظامیہ نے فیصلہ کن قدم اٹھاتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ مسجد قانونی ہے اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ احتجاج کرنے والوں کے خلاف بھی سخت اقدامات کا عندیہ دیا گیا۔
پیر کو بھگوا شرپسندوں پر مشتمل ہزاروں کی بھیڑ نےسخت سیکوریٹی کے دوران ہنومان مندر سے اکھاڑہ جامع مسجد تک مارچ کیا۔مظاہرین جنہوں نے بھگوا پرچم اٹھا رکھے تھے اور مسلمانوں کو نشانہ بنا کرجارحانہ نعرہ بازی کر رہے تھے، میں بڑی تعداد خواتین کی تھی۔ انہوں اکھاڑہ بازار کی جامع مسجد کو شہید کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بینر اور پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے۔ ہماچل میں مساجد کے خلاف نفرت انگیز مہم ۳۰؍ اگست کو ملیانہ میں مسلم نائی اور غیر مسلم تاجر کے درمیان جھگڑے کے بعد سے شروع ہوئی ہے۔ اس تنازع کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر سنجولی کی مسجد کے خلاف احتجاج کیا گیا اوراس کے بعد سے یکے بعد دیگرے مساجد کو غیر قانونی قرار دےکر انہیں منہدم کرنے کا مطالبہ شدید تر ہونے لگا ہے۔ کلو کے اکھاڑہ بازار کی مسجد کے خلاف نفرت انگیزی کا سلسلہ گزشتہ ۲؍ ہفتوں سے جاری ہے۔
مظاہرین کے دباؤ میں آئے بغیر کلو کےضلع انتظامیہ نے اس باردوٹوک موقف اختیار کیا مسجد غیر قانونی نہیں ہے اس لئے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ کلو کے سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) وکاس شکلا نے کہا ہے کہ ’’کلوکے اکھاڑہ بازار کی مسجد پنجاب وقف بورڈ کی ملکیت ہے۔یہ مسجد اجازت لے کر تعمیر کی گئی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’مسجد کا رقبہ ۹۸۰؍ مربع میٹر ہے جس میں ہمیں مسجد کے منظور شدہ نقشے اور عمارت میں ۱۵۰؍ مربع میٹر کا معمولی فرق ملا ہے۔وقف بورڈ نے اس فرق کو بھی قانونی کرنے کیلئے درخواست دی ہے جو زیر التوا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ’’مسجد میں تعمیراتی کام کی اجازت ۱۹۹۹ء میں لی گئی تھی جس میں ۳؍ منزلوں کی اجازت شامل ہے۔‘‘
واضح رہے کہ کلو کی جس جامع مسجد کو غیر قانونی قراردیا جارہاہے وہ آزادی سے پہلے کی ہے اور اس کی عمارت کا ذکر ریاستی سرکار کے ۱۵؍ اگست ۱۹۷۰ء کے گزٹ نوٹیفکیشن میں بھی موجود ہے۔ضلع انتظامیہ کے سخت رویہ کو بھگوا عناصر منہ بھرائی کی کوشش قرار دے کر نفرت انگیزی میں مصروف ہیں۔
ہماچل پردیش میں یکے بعد دیگرے مساجد کے خلاف شرانگیزیوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے منڈی کی مسلم ویلفیئر کمیٹی کے صدر نعیم احمد نے بتایا کہ’’ہماچل پردیش میں کوئی مسجد غیر قانونی نہیں ہے بس نقشہ کی منظوری حاصل کرنے میں تاخیر ہورہی ہے جس کی وجہ سے کنفیوژن پیدا کیا جا رہاہے۔‘‘ انہوں نے اعلان کیا کہ ’’اگر کہیں کسی مسجد کا کوئی حصہ غیر قانونی ہوگا تو ہم خود اسے ہٹا دیں گے۔‘‘