حجاب معاملہ اور شیموگہ قتل : کیا اگلے سال ہونے والے ریاستی انتخابات کے لئے ایجنڈا تیار کیاجارہاہے؟
بھٹکل 5 مارچ (ایس او نیوز) گرچہ روس اور یوکرین کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ بھارت کے کئی طلبا جنگی شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں انہیں بحفاظت وطن لانےمیں دشواریاں ہورہی ہیں ۔ ریاست کرناٹک میں وزیر اعلیٰ بسوراج بومائی نے اپنا بجٹ پیش کیا ہے۔ ایسے اہم موضوعات کو درکنار کرتےہوئے ریاست کرناٹک میں حجاب معاملہ ، شیموگہ میں قتل اور فسادات پر بحث ہورہی ہےتو سمجھ لیجئے کہ الیکشن قریب ہیں۔ جی ہاں ! ریاستی ودھان سبھا کے لئے ٹھیک ایک سال باقی ہے تو پھر سیاسی بساط کے لئے ایسی بحث ضروری ہوجاتی ہے۔
شیموگہ میں بجرنگ دل کارکن ہرشا کے قتل کو لے کر بی جے پی کے کارکن سخت غصے میں ہیں۔کئی کارکنان سوال کررہےہیں کہ ہندوتوا نظریہ کی حمایت کرنے والی اپنی پارٹی ہی جب برسراقتدار میں ہونےکے باوجود ہندوتوا کارکن کی حفاظت کیوں نہیں ہورہی ہے۔ پارٹی اعلیٰ لیڈر کہتے ہیں کہ بی جے پی کے جو مضبوط قلعے مانے جاتے ہیں ان میں ایک شیموگہ بھی ہے۔ ایک ہندوتوا کارکن کا قتل بی جے پی کے لئے بھاری نقصان دہ ہے۔ اس معاملےمیں ریاستی حکومت سخت کارروائی نہیں کئے جانے کی وجہ سے کارکنان بہت مایوس ہیں۔
اپنی پارٹی کے اندر جاری خلفشار اور غصہ کو کم کرنےکی کوشش میں بی جے پی لیڈران نے ’دہشت گرد اسلام ‘ کا فقرہ کستےہوئے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کوئی پس و پیش نہیں کی۔ کچھ بھی ہو یہ ماناجارہاہے کہ حجاب معاملہ اور شیموگہ کا قتل انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ دے گا۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ شیموگہ میں قتل ہوئے ہرشا کے خاندان والوں کی مدد کے لئے لوگ آگے آرہے ہیں ، ہندو سماج متحد ہورہاہے، آخر میں یہ بی جےپی کو فائدہ پہنچائے گا۔ حجاب کی مخالفت میں کیسری شال پہن کر کالج آنے والے طلبا ظاہری طورپر یہ ایک معمولی واقعہ نظر آرہاہوگا۔ لیکن غورکرنے والی بات یہ ہے کہ یہی طلبا اگلے سال پہلی مرتبہ ووٹ ڈالیں گے اور اس طرح وہ بی جےپی کے ہونے کی پارٹی ذرائع کا کہنا ہے۔
اب کانگریس کی بات کریں تو فی الحال جاری پولرائزیشن کی وجہ سے کانگریس بڑی متفکر نظر آرہی ہے۔اسی لئے کانگریسی لیڈران اگلے انتخابات میں بی جے پی کو سخت ٹکردینےکےمنصوبےتشکیل دینے میں مصروف نظر آرہےہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح بی جےپی کے لئے آئی ٹی سل ایک اثاثہ بنا ہواہے اسی طرح کا ایک نتیجہ خیز آئی ٹی سل کانگریس کو بھی بنانا ہوگا۔
کانگریس کو یہ بھی فکر ستا رہی ہے کہ ایس ڈی پی آئی کی وجہ سے یہاں مسلمانوں کے ووٹ بٹ رہے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس ایس ڈی پی آئی کے ایک لیڈرکاکہنا ہے کہ کیرلا کی طرح یہاں کرناٹک میں کسی بھی حلقہ میں 80فی صد مسلمان ووٹر نہیں ہیں، کسی ایک ہی طبقے پر انحصار کرنےو الا کوئی حلقہ یہاں نہیں ہے۔ اس طرح کے پولرائزیشن سے ایس ڈی پی آئی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔