انسداد گئو کشی آرڈیننس کی منظوری افسوسناک و غیر جمہوری، گئو کشی پر بنے کالے قانون پر کنیز فاطمہ گلبرگہ رکن اسمبلی کی شدید تنقید
گلبرگہ،8جنوری (ایس او نیوز؍شاکرایم اے حکیم) کرناٹک کے گورنر وجو بھائی والا کی جانب سے کرناٹک کابینہ کی جانب سے پاس کئے گئے انسداد گئو کشی آرڈیننس کو منظوری دینے پر سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کانگریس گلبرگہ شمال رکن اسمبلی محترمہ کنیز فاطمہ نے اس کالے قانون کو غریبوں، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا حربہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ قانون اس لئے پاس نہیں کیا گیا کہ بھاجپا کو گائے سے محبت ہے ،بلکہ اس قانون کی غیر سائنٹفک، نا قابل عمل، ناقابل قبول شقوں کو یہ دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس قانون کی بنیاد نفرت اور بد معاشی پر رکھی گئی ہے اور اس کا ایک مخصوص طبقہ نشانہ بنے گا۔ گورنر کرناٹک کو اس قانون کی منظوری دینے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہئے تھا کہ وہ ایک آئینی عہدہ پر بر ا جمان ہیں اور ان کو پوری ریاست کی نمائندگی کرنی ہے، نا کہ صرف ایک پارٹی یا قوم کی، اس آرڈیننس سے ریاست کی اکثر آبادی متاثر ہوگی۔
انہوں نے آرڈیننس کے چور دروازہ سے اس قانون کو ریاست کے عوام کے سر پر تھوپنے کا الزام لگاتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنی شر انگیزی اور غیر جمہوری حرکات سے باز آجائے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اس آرڈیننس کو مقننہ کے حقوق کے اْوپر ڈاکہ بتایا اور پوچھا کہ ایسی کیا گڑبڑی تھی کہ یڈی یورپا حکومت نے پہلے جمہوری اقدار کا قتل کرتے ہوئے اسمبلی میں دھوکہ سے انسدادگئو کشی بل کو پاس کرایا، پھر کونسل میں اپنی سازش میں کانگریس کے فلور مینجمنٹ کے سامنے شکست کھاتے ہوئے اس بل کو پاس کروانے کی ناکام کوشش کی اور اب آرڈیننس کے راستے سے اسے کرناٹک کی عوام کے سر پر تھوپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر آرڈیننسوں کے ذریعہ ہی حکومت چلانی ہو تو پھر انتخابات اور دیگر جمہوری اقدار کا کیا فائدہ۔
اس قانون کو سپریم کورٹ کی آبزرویشن (ہدایات) کے خلاف بتاتے ہوئے انہوں نے یاد دلایا کہ کچھ ہی دن قبل میڈیا میں اس بات کی چرچا ہوئی تھی کہ چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے حکومت کو لتاڑتے ہوئے یہ کہا تھا کہ مویشی نقل و حمل (ٹرانسپورٹ) کے متعلق 2017میں بنائے گئے قوانین)جس میں حکومت کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ مویشی کی نقل و حمل میں استعمال ہونے والی گاڑیاں ضبط کریں، اور ضبط کردہ مویشیوں کو گؤ شالہ وغیرہ کو دے دیں) متضاد ہیں اور اگر حکومت اسکو واپس نہیں لیتی تو ہم اسکو رد کرینگے۔ اسکے بعد بھی اسطرح کے قانون لانا جس میں رد کردہ قوانین سے بھی آگے بڑھ کر جگہ کو بھی ضبط کرنے کی اجازت دی گئی ہو، انتہائی غلط ہے اور کھلے عام قانون اور سپریم کورٹ کا مذاق ہے۔