ریاستی سرکار نے مختلف عدالتوں میں زیرالتوا ء 142فوجداری مقدمات واپس لیے
منگلورو 2؍اپریل (ایس او نیوز) ریاستی سرکار نے اپنے ایک حکم نامے کے مطابق گزشتہ کچھ برسوں سے ریاست کی مختلف عدالتوں میں التواء میں پڑے ہوئے جملہ 142مقدمات واپس لیے ہیں۔مگر حکومت کے ا س اقدام سے استغاثہ (پولیس) مطمئن نہیں ہے کیونکہ اس کا احساس ہے کہ اس طرح مقدمات واپس لینے سے عوام کے لئے منفی پیغام جائے گا۔
بڑے لمبے عرصے سے التو ء میں پڑے ہوئے جن مقدمات کو حکومت نے واپس لینے کے احکام دئے ہیں ، ان میں قتل، فسادات، پولیس افسران پر حملہ، قتل کی کوشش اور جنسی ہراسانی جیسے سنگین جرائم بھی شامل ہیں۔
آر ٹی آئی قانون کے تحت ڈائریکٹرآف پراسیکیوشنس اینڈ گورنمنٹ لیٹی گیشن بنگلورو سے حاصل کی گئی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ ریاستی حکومت کے احکام کے مطابق جے ایم ایف سی اور سیشنس عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کو مرحلہ وار واپس لینے کا سلسلہ اکتوبر 2018اورجنوری 2019کے درمیان انجام دیاگیا ہے۔ان میں سال 2011سے 2016تک دائر کیے گئے مقدمات شامل ہیں۔مقدمات واپس لینے کی اس کارروائی سے سب سے زیادہ فائدہ جنوری اوردسمبر 2015میں جنوبی کینرا کے کارائی اور اولائی بیٹو میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے ملزمین کو پہنچا ہے۔اس کے علاوہ مختلف مقامات پر کسانوں کے احتجاجات اور دیگر مسائل پر احتجاجی مظاہروں کے دوران ہونے والے تشدد کے معاملات بھی ملزمین کو بری کردیاگیا ہے۔
پتہ چلاہے کہ استغاثہ نے ڈائریکٹرآف پراسیکیوشنس اینڈ گورنمنٹ لیٹی گیشن بنگلورواور ہوم ڈپارٹمنٹ کو بھیجی گئی اپنی تعمیلی رپورٹ میں اس بات کا خدشہ جتایا ہے کہ فسادات اور قتل جیسے سنگین جرائم میں ملزم بنائے گئے افراد کے مقدمات کو سرکار کی طر ف سے واپس لیے جانے کے اس اقدام سے اپنا عدم اتفاق ظاہر کرتے ہوئے اندیشہ جتایا ہے کہ اس سے سماج میں ایک منفی پیغام جائے گااور آئندہ اس سے جرائم کی روک تھام پر اثر پڑے گا۔