حکومت سے’اختلاف رائے‘رکھنے کا مطلب ’ملک دشمنی‘ نہیں ہوتا! سپریم کورٹ جج دیپک گپتا کا تبصرہ
نئی دہلی24/فروری (ایس او نیوز) سپریم کورٹ کے جسٹس دیپک گپتا نے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے فیصلوں سے اختلاف کرنے والوں کو دبانے کی کوشش کرنے سے جمہوریت پربڑے بھیانک اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ:”حکومتیں اپنے اقدامات میں ہمیشہ درست نہیں ہوتیں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو ’ملک دشمن‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔“
جسٹس گپتا سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی جانب سے”جمہوریت اور اختلاف رائے“کے عنوان پر منعقدہ اجلاس میں اپنے لیکچر کے دوران ان خیا لات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”حالیہ دنوں میں ایسے واقعات ہوئے ہیں جس میں لوگوں کو اس لئے ’ملک دشمن‘قرار دیا گیا کیونکہ انہوں نے حکومت کے ساتھ اختلاف رائے کا اظہار کیا تھا۔“جسٹس گپتا نے واضح الفاظ میں کہا کہ ”اگر کوئی پارٹی 51 فیصد ووٹ حاصل کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتاہے کہ 49 فیصد لوگ آئندہ پانچ سالوں کے لئے اپنے منھ بند کرلیں۔جمہوریت میں ہر ایک شہری کو اپنا کردارادا کرنا ہوتا ہے۔ حکومتیں ہمیشہ درست نہیں ہوتیں۔اگر کوئی اس سے الگ نظریہ رکھتا ہے تو اس کا مطلب ملک کی بے عزتی کرنا نہیں ہوتا۔ جب کبھی بھی خیالات کا ٹکراؤ ہوگاتو وہاں پر اختلاف رائے ضرورہوگا۔کسی بات پر سوال پوچھنے کاحق جمہوریت کا بنیادی حصہ ہوتا ہے۔حزب اختلا ف کوپرامن طور پر احتجاج کرنے کا پورا حق ہوتا ہے۔حکومت سے اختلاف رکھنے والوں کو ملک دشمن قرارد ینے سے جمہوری نظام پر ہی چوٹ پڑتی ہے۔اس لئے اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ اس سے ملک کا نظام حکومت بہتر انداز میں چلانے میں مدد ملتی ہے۔“
جسٹس گپتا نے یہ بھی کہا کہ وہ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے منظور کی جانے والی ان قراردادوں کو بھی مسترد کرتے ہیں جس میں کچھ لوگوں کے مقدما ت میں ملزموں کی(خاص کرکے جن لوگوں پر پولیس نے ’ملک سے دشمنی‘ کے الزامات میں مقدمات دائر کیے تھے) پیروی نہ کرنے کے فیصلے کیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ قانونی اخلاقیات (لیگل ایتھکس) کے منافی بات ہے“۔