پتور بس اسٹاننڈ کے علاقے میں طالبات اور خواتین کے ساتھ چھیڑخانی۔ سادہ لباس میں پولیس والوں نے شروع کی نگرانی
پتور26/جون (ایس او نیوز) پتور کے ایس آر ٹی سی بس اسٹانڈ کی عمارت اوراس کے اطراف میں اسکول اور کالج جانے والی طالبات اور خواتین کے ساتھ اوباش لڑکوں کے ذریعے چھیڑ خانی کیے جانے کے معاملات سوشیل میڈیا پر عام ہونے کے بعد پولیس حرکت میں آگئی اورپھر سادہ لباس میں اس علاقے کی نگرانی شروع کردی گئی ہے۔
پتور بس اسٹانڈ کے گراؤنڈ فلور کے علاوہ پہلے منزلے پر سو سے زیادہ دکانیں ہیں۔ اس میں سے پہلے منزلے پر واقع ایک موبائل کی دکان میں موجود افراد کی طرف سے طالبات کو ستانے اور چھیڑ خانی کرنے کی بات سامنے آئی تو عوام میں سے کچھ لوگوں نے موبائل دکان والوں کے خلاف ہنگامہ کھڑا کردیا۔ کچھ ہندو تنظیموں کے رضاکار بھی موقع پر جمع ہوکر ہنگامہ آرائی میں شامل ہوگئے۔ پولیس کو جب اس کی اطلاع ملی تو اس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے وہاں سے ہجوم کو منتشر کردیا۔
بتایاجاتا ہے کہ بس اسٹانڈ کی عمارت کے صرف داخلی دروازے پر سی سی کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ بقیہ پوری عمارت اور راہدریوں میں کوئی کیمرہ نہیں ہے۔ اوباش قسم کے نوجوان دن بھر یہاں مٹرگشتی کرتے رہتے ہیں اور آنے جانے والی طالبات اور خواتین کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ اس میں کچھ طالب علم بھی ہوتے ہیں جو کالجوں میں جانے کے بجائے بس اسٹانڈ کی اس عمارت کی مختلف دکانوں اور راہداریوں میں لڑکیوں کو ستانے اور وقت گزاری کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔
ایک سال پہلے شکنتلا شیٹی جب رکن اسمبلی تھیں تو کے ڈی پی کی میٹنگ میں پتور بس اسٹانڈ کی ہائی ٹیک عمارت میں چل رہی چھیڑ خانی اور غیر قانونی سرگرمیوں کے تعلق سے مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔ اس وقت پولیس کو مناسب کارروائی کرنے کی ہدایات دی گئیں تھیں۔اس کے علاوہ اس عمارت کے انتظامات کے لئے ذمہ دار’ہندوستان پروموٹرس‘ نامی ادارے کو ہدایت دی گئی تھی کہ عمارت کی راہداریوں اور دیگر ضروری مقامات پر سی سی کیمرے نصب کرے۔ مگر اس پر ابھی تک عمل نہیں ہوا ہے۔
اب سوشیل میڈیا پر پھر سے اس مسئلے کو اٹھایاگیا تو پولیس نے کارروائی شروع کی ہے۔پتور مہیلا پولیس اسٹیشن کی سب انسپکٹر سیسمّا نے بتایا کہ خواتین پر ہونے والی زیادتیوں پر روک لگانے کے لئے صبح میں اسکولوں او رکالجوں کے آغاز اور شام میں چھٹی کے موقع پر مختلف تعلیمی اداروں کے اطراف اور بس اسٹانڈ پر دو دو لیڈی پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ اور طالبات و خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔