جرمنی میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات سست روی کا شکار کیوں؟
برلن /11مارچ (آئی این ایس انڈیا)سوئٹزرلینڈ یا فرانس نے ایک ہزار سے زیادہ افراد کے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اٹلی کے وزیر اعظم نے پورے ملک کو ایک محدود زون قرار دے دیا ہے۔ لیکن جرمنی میں سب کچھ انتہائی سست رفتاری سے ہو رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟بیشتر ممالک میں بڑے اجتماعات پر پابندی اور تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے لیکن جرمنی میں ابھی تک صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں؟سوئٹزرلینڈ یا فرانس نے ایک ہزار سے زیادہ افراد کے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اٹلی کے وزیر اعظم نے پورے ملک کو ایک محدود زون قرار دے دیا ہے۔ لیکن جرمنی میں سب کچھ انتہائی سست رفتاری سے ہو رہا ہے۔اس 'سست رو ی کی بنیادی وجہ جرمنی کا وفاقی نظام ہے۔ اس نظام کے تحت وفاقی حکومت بہت سے شعبوں کی منصوبہ بندی میں بلدیات کی سطح تک براہ راست مداخلت نہیں کرسکتی۔ آئین میں اس کی ضمانت موجود ہے۔ اس کے نتیجے میں، انفرادی میونسپلٹیز، بالخصوص 294 کاؤنٹیز اور 107 شہروں کی انتظامیہ کو بڑی آزادی اور خود مختاری حاصل ہے۔ مقامی حکام فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کے زیر انتظام علاقوں میں کیا ہوگا اور کیا نہیں؟ کورونا / کووِڈ 19کیس صحت کے حکام کا معاملہ ہے،جس کی طرف برلن میں وفاقی وزیر صحت جینس اسپاہن نے ایک بار پھر نشاندہی کی۔مثال کے طور پر، جرمن صوبے سیکسنی کے ایک ضلع نے پہلا کورونا کیس سامنے آنے کے بعد فوری طور پر فیصلہ کیا کہ وہ ایک سو سے زیادہ شرکاء پر مشتمل اجتماعات اور اسکولوں کے بچوں کے 'کلاس ٹرپس‘ یا دوروں پر پابندی عائد کر دی جائے۔ برانڈنبرگ میں، اب ایک پوری میونسپالٹی کو قرنطین کر دیا گیا ہے جس سے پانچ ہزار شہری متاثر ہو گئے ہیں۔ انفیکشن سے بچاؤ کے متعلقہ قوانین دراصل بنیادی قانون کے تحت تشکیل کیے گئے ہیں۔جرمنی میں کورونا وائرس کے سبب ہونے والی دو ہلاکتوں کے بعد اکثر مقامات پر ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا گیا ہے۔جرمنی کی 16 وفاقی ریاستیں خود سب سے پہلے اس امر کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کہ مقامی سطح سے باہر بھی لیبارٹریز اور ہسپتال کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔ اس کے علاوہ، ہر وفاقی ریاست کا اپنا سول پروٹکشن لا یا شہری تحفظ کا ایک قانون ہے، جس پر وزرائے داخلہ درخواست دے سکتے ہیں۔برلن میں قائم طبی سائنسی تجربات کے مرکز شیریٹی کے چیف وائرولوجسٹ کرسچن ڈروسٹن کے مطابق مرکزی حکومت کے زیر انتظام نہیں بلکہ بہت ساری علاقائی لیبارٹریز جنوری سے ہی تشخیصی عمل میں آگے آگے تھیں، اور ابتدائی طور پر کورونا کی جانچ کرنے میں کامیاب بھی ہوئیں۔ دوسرے ممالک میں ایسا نہیں تھا، مثال کے طور پر جن ممالک میں قومی صحت کے انسٹیٹیوٹ مرکزی سطح پر کام کرتے ہیں وہاں فوری طور پر ٹیسٹ کیے جاسکتے تھے۔ اس طرح انہوں نے قیمتی وقت کی بچت کی۔“ ڈروسٹن نے کہا کہ ان ممالک میں یہ نہیں ہوا کہ موت کے پہلے کیس کے سامنے آنے کے بعد جانچ کی گئی۔