اٹارنی جنرل کی سپریم کورٹ کو آرمی ایکٹ میں تبدیلی کی یقین دہانی
اسلام آباد/28نومبر (آئی این ایس انڈیا) پاکستان کی سپریم کورٹ میں برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر اس میں ضروری تبدیلیاں کریں گے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملامت آج رات 12 بجے مکمل ہو رہی ہے اور سپریم کورٹ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا مختصر حکم نامہ آج جاری کرے گی۔اعلیٰ عدالت میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آرمی چیف کی تقرری، تعیناتی اور توسیع سے متعلق چھ ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کرالیں۔ اگر اس دوران قانون سازی نہ ہوئی تو کیا تقرری غیر قانونی ہو جائے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کی تقرری کی سمری میں ابہام ہے۔ اس سے متعلق نئی سمری جاری کریں اور اس میں تین سال کی مدت ملازمت کے الفاظ حذف کریں۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو مسلسل تیسرے روز آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے خلاف ریاض حنیف راہی کی درخواست پر سماعت کی۔بدھ کو سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ کے طلب کیے جانے پر سابق آرمی چیف راحیل شریف اور اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ جنرل ریٹائرڈ نہیں ہوتا۔ اگر جنرل راحیل شریف ریٹائر نہیں ہوئے تو پنشن نہیں ملے گی۔اٹارنی جنرل نے مو?قف اختیار کیا کہ آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کر دی گئی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نئی تعیناتی آرٹیکل 243 ون بی کے تحت کی گئی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا کہ اب ہونے والی تعیناتی درست کیسے ہے؟ اور جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا ذکر کر دیا گیا ہے۔ اپنا بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں۔ آرمی چیف کا عہدہ آئینی عہدہ ہے جسے پْر کرنا ہے تو قاعدے اور ضابطے کے تحت کیا جانا چاہیے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمری میں اگر خلا رہ گیا ہے تو اسے بہتر کریں گے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری سے عدالت کی ایڈوائس والا حصہ نکالیں۔ صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا۔ اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے۔ آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو کہا کہ آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب آپ نے سینے سے لگا کر رکھی ہے جس پر لکھا ہے غیر متعلقہ بندہ نہ پڑھے۔ کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا حق ہے کہ سوال پوچھیں، ہمیں ففتھ جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھیں ہوں گے۔ آپ تجویز کریں آرمی قوانین کو کیسے درست کریں؟