گوری لنکیش کے قاتل گرفتار ہوسکتے ہیں تو بھٹکل میں ہوئے قتل کے مجرم کیوں گرفتار نہیں ہوتے؟!
کاروار4؍جولائی (ایس او نیوز) صحافی اور دانشور گوری لنکیش کے قتل کے سلسلے میں ملزمین کی گرفتاریاں ہوتی جارہی ہیں اور اس کیس کی پیش رفت مرحلہ وار سامنے آتی جارہی ہے۔اسی طرح قلمکار اور دانشور کلبرگی کے قتل میں بھی دھیمی رفتار سے ہی سہی تفتیش آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن سی آئی ڈی اور سی بی آئی کی طرف سے ہر طرح کی تفتیش اور کوشش کے باوجود بھٹکل کے سابق رکن اسمبلی ڈاکٹر یو چترنجن اور بی جے پی لیڈر تمپّا نائک کے قتل کو دسیوں برس گزرنے کے بعد بھی قاتلوں کاپتہ چل نہیں پایا ہے۔اور یہ معاملہ یونہی ٹھنڈے بستے میں پڑا ہوا ہے۔
فی الحال ہوناور کے پریش میستا کا معاملہ تحقیقات کے مرحلے میں ہے ، اس لئے بھٹکل کے یہ دو سابقہ معاملات کے سلسلے میں کوئی حرکت ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔لیکن ہر انتخاب کے موقع پر ایک خاص سیاسی پارٹی ان دونوں معاملوں کو اچھالنے کا موقع ضرور نکالتی ہے۔ پھر اس کے بعد چترنجن اور تمپّا نائک کے معاملات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
جب بھی کسی کا قتل ہوتا ہے تو سب سے پہلے ہم لوگ ایسے افراد کی فہرست بناتے ہیں جو مقتول کو پسند نہ کرنے والوں میں شامل ہوتے ہیں۔لیکن گوری لنکیش کے قتل کا ملزم پرشو رام واگھ مورے گوری کے قتل کے مہینوں بعد بھی اسے ناپسند کرنے والوں کی فہرست سے باہر تھا۔قتل سے ایک ہفتہ پہلے ہی یو ٹیوب پر واگھ مورے کو گوری لنکیش کی پہچان کروائی گئی تھی اور اسے قتل کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ لیکن یہ شخص اس سے پہلے سندگی میں فرقہ وارانہ فساد پھیلانے کی نیت سے پاکستانی جھنڈا لہرانے کے معاملے میں پولیس کے ہتھے چڑھ چکا تھا۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ واگھ مورے کی گوری لنکیش سے جان پہچان نہیں بھی تھی تب بھی یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہر مرحلے پر اس کی رہنمائی بیرونی افراد کی جانب سے کی جارہی تھی۔ اسی مقام پر بھٹکل کے معاملات بھی یاد آتے ہیں۔
چترنجن اور تمپّا نائک کا قتل ہونے کے بعدجن لوگوں سے تفتیش کی گئی ہے اس فہرست میں ایک یا دو نہیں بلکہ درجنوں افراد شامل ہیں ۔ ان میں بہت سے افراد ایسے تھے جو مقتولوں کو ناپسند کیا کرتے تھے۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے پولیس تھانہ اور کچہری کا کبھی منھ نہیں دیکھا تھا مگر ان دو قتل کے معاملات کی تحقیقات کے لئے انہیں وہاں جانا پڑا ۔لیکن قاتلوں کا پتہ چل ہی نہیں سکا۔
عوام پوچھ رہے ہیں کہ بنگلورو جیسے بہت بڑے شہر میں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیے گئے قتل کے ملزمان ایک کے بعد ایک گرفتار ہوتے جارہے ہیں، لیکن بھٹکل جیسے چھوٹے سے علاقے میں انجام دئے گئے قتل کے ان دو معاملات میں قاتلوں کا پتہ نہ چلنے کی وجوہات کیا ہیں؟ساحلی علاقے میں سیاسی پارٹیاں جن قتل کے معاملات سے فائدہ اٹھاتی ہیں ان میں سے صرف بھٹکل ہی کے معاملات کو چھوڑ کر بقیہ معاملوں میں ملزمین گرفتار کیے جاچکے ہیں۔تمام سیاسی پارٹیوں نے ریاست کی راج گدی سنبھالی مگر ان دو قتل کے ملزمین کو گرفتار کرنا تو دور کی بات ہے، اس کی عدالتی جانچ کی رپورٹ بھی پیش نہیں کی گئی ہے۔اور جان بوجھ کر بھٹکل کے ان دونوں معاملا ت سے ہاتھ اٹھا لینے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔(چترنجن کی آخری رسومات میں شامل ہونے اور ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا وعدہ کرنے والے ایل کے ایڈوانی ہی اب ایک کونے میں سکڑ کر رہ گئے ہیں!)
بھٹکل میں باہر سے ملنے والی ہدایات کے مطابق جرائم انجام دینے کی وارداتیں کم نہیں ہیں۔ جانوروں کی سپلائی روکنے اور ناگ بن میں گائے کا گوشت پھینکنے جیسے معاملات میں پھنسنے والے اور مشتبہ افراد کی فہرست لمبی ہے۔ بہت سے نوجوان واگھ مورے جیسی صورتحال کا شکار ہوگئے ہیں۔ اور یہ سلسلہ یہاں 1993سے اب تک چل رہا ہے۔ عوام اس بات پر تعجب کا اظہار کررہے ہیں کہ بھٹکل میں ہوئے دو لیڈروں کے قتل سے کن کن لوگوں کو فائدہ پہنچا، کون کون لوگ اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، اُس زاوئے سے چھان بین ہی نہیں کی گئی ہے اور ایک مخصوص فرقہ کو نشانہ بناکر چھان بین کرنے کی وجہ سے ہی حقائق پر سے پردہ نہیں اُٹھ رہا ہے۔