مسلم نوجوان سے ہمدردی گمبھیر کو مہنگی پڑگئی؛ ٹوئیٹر پر اپنی ہی پارٹی کے مخالفین نے انہیں گھیرلیا
نئی دہلی،28؍مئی (ایس او نیوز؍ایجنسی) مشرقی دہلی سے بی جے پی کو منتخب رکن پارلیمان گوتم گمبھیر خود اپنی ہی پارٹی کے مخالفین کے نرغے میں گھر گئے ہیں جب انہوں نے گرگائوں میں ایک مسلم نوجوان کے ساتھ بدتمیزی کرنے اور اسے اپنے سر سے ٹوپی اتارنے پر مجبور کرنے کے خلاف ٹوئٹ کیا۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’’ہم ایک سکیولر قوم ہیں‘‘ انہوں نے اس سلسلے میں فلمی گیت کار جاوید اختر کی مشہور فلم لگان کے ایک گانے کا حوالہ بھی دیا تھا۔ ان کے ٹوئٹ کے جواب میں کشور بھرشوال نے جو اپنے نام کے ساتھ چوکیدار لگاتے ہیں گمبھیر سے کہا کہ متھرا کے یادو کے بارے میں بھی لکھنا چاہئے تھا جسے لسی کے دام مانگنے پر قتل کردیا گیا، اگر نہیں لکھ سکتے تو پھر چپ رہو۔ انکیت جین جو بی جے پی کے حمایتی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اس نے بھی گمبھیر کو وارننگ دی کہ اگر بات کرنی ہے تو ہر واقعہ پر بات کیا کریں ان واقعات کے متعلق بھی بات کریں جو ہندوئوں کے خلاف ہوتے ہیں ورنہ خاموش رہا کریں۔
گوتم گمبھیر کے سکیولرازم پر سوالات کی بوچھاڑ کے نتیجے میں انہوں نے سکیولرازم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے یہ خیالات دراصل مودی کے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ منتر ہی سے اخذ کئے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے گڑگائوں تک اپنے آپ کو محدود نہیں کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذات پات اور مذہب کی اساس پر ہونے والا ہر ظلم قابل مذمت ہے۔ ہندوستان کا تصور رواداری پر مبنی ہے۔ بی جے پی کے حمایتوں نے گمبھیر کو مشورہ دیا کہ وہ کسی مخصوص طبقے کے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہ کریں اور گرگائوں جیسے واقعات کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کے ساتھ ہونے والے واقعات پر بھی ہمدردانہ تبصرہ کریں۔