سنت پرعمل دنیاوآخرت میں کامیابی کاذریعہ از:اسرارالحق قاسمی
علمی اصطلاح میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل دونوں پرسنت کا اطلاق ہوتاہے،سنت کا لغوی معنی بھی طریقہ ہے اورسیدھے طورپریہ کہا جا سکتا ہے کہ جوعمل آپؐ کے قول سے یاعمل سے ثابت ہووہ سنت ہے۔شریعت میں سنت کی غیر معمولی اہمیت ہے اور مسلمانوں کایہ امتیازہے کہ اللہ کے نبیﷺنے اپنی امت کی اجتماعی و انفرادی زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں رہنمائی کی ہے۔خانگی زندگی سے لے کرمعاشرے میں رہنے کے طور طریقوں سے بھی آپؐ نے آگاہ فرمایاہے،سونے سے لے کر جاگنے تک اور کھانے پینے سے لے کر اٹھنے بیٹھنے تک کا طریقہ بتایاہے،لوگوں سے کس طرح بات کرناہے اور ان کے ساتھ کیسا برتاؤکرناہے،یہ بھی ہمارے نبیﷺنے بتایاہے،مختصریہ کہ اللہ کے نبیﷺنے قدم قدم پر اپنی امت کے ہر فردکی رہبری و راہنمائی فرمائی ہے ۔اوریہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کوئی انسان نبی اکرمﷺکے بتائے ہوئے طورطریقوں کواپنی عملی زندگی میں برپاکرتاہے اور اسی طرح اپنی زندگی گزارتاہے جیسے کہ آپؐ نے ہدایت فرمائی ہے تویقیناً ایسا انسان کامیاب ہے،حضورپاکﷺکی سنتوں پرعمل کرنادراصل اللہ کے احکام کی پابندی ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’جو رسول کی اطاعت کرتاہے، اس نے اﷲ کی اطاعت کی‘‘(سورۂ نساء:80)اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی پاکﷺجوبھی عمل کرتے ہیں یاجوبھی ہدایت فرماتے ہیں وہ دراصل اللہ کی جانب سے ہی تلقین کیاجاتاہے،دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی مزید وضاحت فرمائی ہے:’’ اور رسول تم کو جو کچھ دے اس کو لے لو اور جس چیز سے تم کو منع کرے اس سے رُک جاؤ‘‘۔ (سورۂ حشر:7)اس سے واضح ہوگیاکہ اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے میں ہی مکمل کامیابی ہے اورآپؐ کے احکام پرعمل کرنا اور منہیات سے رکناشرعی تقاضاہے۔پھریہ کہ اتباعِ رسول دراصل اللہ اور اس کے رسول سے محبت کی علامت ہے،جیساکہ ارشاد ہے: ’’کہہ دو اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہوتو میری اتباع کرواﷲ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا، اور اﷲ بہت زیادہ معاف کرنے والااور رحم کرنے والا ہے، کہہ دو اﷲ اور رسول کی اطاعت کرو ، اگر تم رو گردانی اختیار کرتے ہو تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتا ہے‘‘۔(سورۂ آل عمران : 31-32)نبی پاکﷺجوکچھ بیان کرتے ہیں اور اپنی امت کوجوہدایت فرماتے ہیں،وہ سب اللہ کی جانب سے ہوتاہے اور اللہ کی طرف سے دیے گئے احکام کی تشریح ہوتاہے،جیساکہ فرمایاگیاہے :’’ہم نے تم پر قرآن نازل کیاہے تاکہ لوگوں کے سامنے اس کو کھول کھول کر بیان کرو جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے‘‘۔(سورۂ نحل :44)
احادیث میں بھی متعددمقامات پرنبی اکرمﷺنے صحابہ کواورصحابہ کے واسطے سے تمام امت کوسنت پر عمل کرنے اور اس کولازم پکڑنے کی تلقین کی ہے، حضرت عرباض بن ساریہؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:’’میری سنت کو لازم پکڑو‘‘۔ (سنن أبو داؤد:4604) حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ بلاشبہ مجھے کتاب عطاکی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل دوسری چیز بھی‘‘۔ (سنن أبو داؤد: 4607)اس حدیث میں دوسری چیزسے مراد سنت ہی ہے۔
قرآن اور حدیث کے مذکورہ نصوص و دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سنت نبویہؐ شریعتِ اسلامیہ کے مصادر و مآخذ میں ایک اہم مصدر اور حجت کی حیثیت رکھتی ہے، وہ قرآن کریم کے بعد دوسرے ماخذکا مقام رکھتی ہے، اس پر تمام مسلمانو ں کا اجماع ہے۔بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے تمام مسلمانو ں پر رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت فرض کی ہے اور ان پر تمام اوامر و نواہی اور احکام و تشر یع میں آپ ؐ کی اتباع کو ضروری قرار دیا ہے، اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ وابستہ کیا ہے، اور اپنے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے ، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’ جو رسول کی اطاعت کرتاہے اس نے اﷲ کی اطاعت کی‘‘۔ لہذا جس نے رسول ﷺ کی اطاعت اس حیثیت سے کی کہ آپ ؐ رسول اور مبلغ ہیں تو وہ فی الحقیقت اﷲ ہی کی اطاعت کرتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے سنتِ نبویہؐ کو مضبوطی سے تھامنے کی باربارتاکید فرمائی ہے اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ وہ تشریعی احکام میں سے ایک اہم دلیل ہے، آپ ؐ نے اس بات سے ڈرایا ہے کہ کوئی قرآن و سنت میں تفریق کرے، صرف قرآنی احکام پر اکتفاء کرے اور سنت پر عمل کرنا ترک کر دے، آپ ؐ کا ارشاد ہے:’’میں تم میں سے کسی کو اس حال میں ہرگز نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو، اس کے پاس میری کوئی حدیث پہنچے جس میں کسی چیز کا میں نے حکم دیا ہو یا کسی چیز سے روکا ہو تو وہ یہ کہے:ہم نہیں جانتے ہیں ،ہم جو کچھ کتاب اﷲمیں پائیں گے اسی کی ہم اتباع کریں گے‘‘۔(سنن أبو داؤد:4605)
سنت نبویہؐ مطہرہ یا تو قرآنِ کریم میں وارد احکام کی تاکید کرتی ہے یا اس کے مجمل کی تفصیل بیان کرتی ہے یا اس کے عام کو خاص کرتی ہے، یا اس کے مطلق کو مقید کرتی ہے یا اس کے کسی حکم کو منسوخ کرتی ہے، یا قرآنِ کریم میں غیر موجود کسی حکم کو بیان کرتی ہے۔یعنی آپؐ کے ذریعے دیاگیاہرحکم دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیاگیاحکم ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔جب آپؐاپنی زندگی کے آخری ایام گزاررہے تھے،اس موقعے پر آپ نے اپنی امت کوکامیابی و کامرانی کاایک عظیم نسخہ عنایت فرمایاتھا،آپ نے فرمایاتھاکہ میں تمھارے درمیان دوایسی چیزیں چھوڑکر جارہاہوں،کہ جب تک تم ان کوتھامے رہوگے ، گمراہ نہیں ہوسکتے اور وہ دوچیزیں کتاب اللہ اور میری سنت ہے۔اسی طرح آپؐ نے اپنے بعداپنے صحابہ کی اتباع کی بھی تلقین فرمائی اور یہ فرمایاکہ’میرے صحابہ ہدایت کے ستارے ہیں،تم ان میں سے جس کی بھی اتباع کروگے ہدایت پاجاؤگے‘۔ آپؐنے بطورِخاص خلفائے راشدین کی اتباع کی بھی ہدایت فرمائی،کیوں کہ جہاں فضیلت اور مرتبے میں خلفائے راشدین حضرت ابوبکرصدیقؓ،عمرفاروقؓ،عثمان غنیؓ اور علی کرم اللہ وجہہ دیگر صحابہ اور مسلمانوں سے آگے ہیں،وہیں انھیں یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ انھوں نے نبی پاکﷺکے قول و عمل کودل و جان سے قبول کیااوراپنی زندگی کومکمل طورپرسنتِ نبوی کے سانچے میں ڈھال لیاتھا۔
لہٰذاہردورکے مسلمانوں کی کامیابی اور کامرانی اسی میں ہے کہ وہ اپنے نبیﷺاورآپؐکے معززصحابہ کی زندگیوں کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے اورزندگی کے ہر موڑاور ہر شعبے میں ان کے قول و عمل کومضبوطی سے تھامے۔آج جوبظاہر ہر چہارجانب مسلمان خسارے میں ہیں اورانھیں ہرشعبۂ حیات میں ناکامیوں کاسامناہے،اجتماعی و انفرادی طورپرمصائب اور شکست و ہزیمت ان کا مقدربن چکی ہے،اس کی دیگر وجوہ کے ساتھ ایک اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے نبیﷺکی سیرت و سنت سے کوسوں دورہوچکے ہیں،دنیاکی ظاہری چمک دمک اور مادیت پرستی ہمارے معاشرے اور گھروں میں سرایت کرچکی ہے اورہم دین سے دوررہ کردنیاکی آسایشیں حاصل کرنا چاہتے ہیں،اسی کا نتیجہ ہے کہ ہرقدم پر ہمیں نقصان اور خسارے سے دوچارہوناپڑرہاہے۔جب کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو ہم خداورسول اور قرآن و سنت کی دہائیاں دیتے ہیں،لیکن جب خوشحالی میں ہوتے ہیں تودیگر اقوام کی طرح غفلت او رعیش پرستی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں،حالاں کہ ہمارے نبیﷺکی سنت یہ ہے کہ اگرخوشحالی ہوتواللہ کی نعمتوں کاشکراداکریں اوراگرمصیبت میں ہوں توصبرکریں اورہرموڑپرصرف اللہ سے مددونصرت طلب کریں۔اعتدال اور توازن سنتِ نبویﷺکا خاص وصف اور امتیازہے جوہماری زندگیوں سے ناپیدہے اور ہم عملی دنیامیں افراط و تفریط کے شکارہیں۔اس لیے اگرہمیں واقعی پرسکون زندگی مطلوب ہے توہرحال میں سنتوں کوزندہ کرنے کی جدوجہد کرنی ہوگی اور سیرتِ نبویﷺاورصحابہؓکی مثالی زندگیوں کواپنے لیے مشعلِ راہ بناناہوگا۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے۔(آمین)(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)