امن مذاکرات: افغان خواتین مستقبل اور حقوق سے متعلق خدشات کا شکار

Source: S.O. News Service | Published on 15th September 2020, 9:00 PM | عالمی خبریں |

 پشاور،15/ستمبر (آئی این ایس انڈیا) طویل انتظار کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بین الافغان مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہو گئے ہیں۔ جہاں فریقین گزشتہ 40 سال سے ملک میں جاری شورش اور بد امنی کے خاتمے کے لیے متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کی کوشش کریں گے۔

افغان عوام ان مذاکرات کی کامیابی کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں۔ تاہم افغانستان میں بسنے والی خواتین اب بھی اپنے حقوق کے لیے زیادہ پُر امید نظر نہیں آتیں۔

بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب کے موقع پر جب ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے طالبان رہنماؤں سے خواتین کے حقوق کے بارے میں پوچھا تو ان کے جوابات واضح نہیں تھے۔

بہشتہ ارغند پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں براہِ راست طالبان کا دور تو نہیں دیکھا۔ البتہ انہوں نے اپنے بڑوں سے اس دور کے قصے ضرور سنے ہیں۔

دیگر افغان باشندوں کی طرح بہشتہ کو بھی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے بین الافغان مذاکرات سے بہت زیادہ امیدیں ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ افغانستان میں جلد سے جلد امن قائم ہو تاکہ ہر شخص پُرامن زندگی گزار سکے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بہشتہ ارغند نے بتایا کہ 1996 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی۔ ایک سال بعد ان کی پیدائش پشاور کے نواح میں شمشتو مہاجر کیمپ میں ہوئی۔

بہشتہ کے بقول انہوں نے ابتدائی تعلیم مہاجر کیمپ کے اسکول میں حاصل کی جس کے بعد 2012 میں ان کے خاندان کو واپس کابل جانا پڑا۔

بہشتہ کابل یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان دنوں ملکی اور غیر ملکی میڈیا اداروں کے لیے کام کر رہی ہیں۔

بہشتہ کے مطابق صحافت کا شوق اُنہیں پاکستان میں مہاجر کیمپ کے دوران اس وقت ہوا جب وہ پاکستان ٹیلی وژن پر خواتین کو پشتو زبان میں خبریں پڑھتے دیکھتی تھیں۔ تب سے اُنہیں بھی یہ شوق ہوا کہ وہ مستقبل میں افغانستان کی خواتین کی آواز بنیں تاکہ عالمی برادری کو بتا سکیں کہ وہ مزید جنگ نہیں چاہتیں اور دیگر ممالک میں بسنے والے افراد کی طرح پر امن زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔

اُن کے بقول، "میں نے افغانستان میں طالبان کا دورِ حکومت خود تو نہیں دیکھا لیکن میرے اہلِ خانہ کی اس دور کی یادیں کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہیں۔"

بہشتہ کہتی ہیں کہ افغانستان میں خواتین کی آزادی کے لحاظ سے ڈاکٹر نجیب کا دور سنہرا تھا جس میں ہر کسی کو شخصی آزادی حاصل تھی۔ لیکن اس کے بعد کے ادوار میں آہستہ آہستہ خواتین کے تمام حقوق سلب ہو گئے اور حتیٰ کہ طالبان کے دور میں تو خواتین کے کام کرنے پر بھی پابندی لگ گئی۔

بہشتہ کے نزدیک اب خواتین کو محدود رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ کیوں کہ اب حالات بہت بدل چکے ہیں۔

یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان کے دورِ حکومت میں خواتین کے حوالے سے بہت سخت قوائد و ضوابط تھے جس کی وجہ سے اُن کے طرز حکومت کو عالمی سطح پر پذیرائی نہیں ملی تھی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان اب آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور اس لحاظ سے ضروری ہے کہ وہ اپنی پالیسی میں لچک کا مظاہرہ کریں۔

طالبان کی قیادت نے بھی بارہا خواتین کی تعلیم اور روزگار کے حوالے سے اپنے رویوں میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور متعدد بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اُنہیں خواتین کی تعلیم اور روزگار کے حوالے سے شرعی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

تاہم بہشتہ ارغند طالبان کی اس دلیل سے مطمئن نہیں ہیں۔ اُن کے مطابق طالبان سے اب بھی خواتین کے مسائل کے حوالے سے بات کی جائے تو اُن کا جواب ہوتا ہے کہ اس پر بعد میں بات کی جائے گی۔ اس لحاظ سے افغانستان کے عوام جاننا چاہتے ہیں کہ انہیں اپنی پالیسی کی وضاحت کرنا ہو گی کہ وہ افغانستان کی خواتین کے حقوق کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

بہشتہ کے مطابق یہ ایک نئی نسل ہے۔ دو دہائی قبل اور آج کے افغانستان میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان ہفتے کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے افتتاحی تقریب کے بعد اب باقائدہ طور پر مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ جس میں وہ افغانستان کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کریں گے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان وفد میں خواتین کی بھی نمائندگی ہے لیکن طالبان کے وفد میں کوئی خاتون شامل نہیں ہے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ان کا وفد کسی خاتون کی عدم موجودگی میں ان کے حقوق کی بات نہیں کر سکتا۔

شینکئی کروخیل، 2005 سے افغان پارلیمنٹ کی رکن ہیں۔ اُن کے مطابق وہ طالبان اور اس کے بعد کے دور کا مقابلہ نہیں کر سکتیں کیوں کہ طالبان کے دور میں تو خواتین کے کوئی حقوق ہی نہیں تھے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شینکئی کروخیل نے بتایا کہ آج افغانستان کی بچیاں ملک کی پارلیمان اور کابینہ کے علاوہ نجی شعبے اور میڈیا میں بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

اُن کے بقول خواتین کے لیے افغانستان کی یونیورسٹیوں کے دروازے کھلے ہیں جو کہ خوش آئند ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے۔

شینکئی کروخیل کہتی ہیں کہ طالبان کا دوبارہ اقتدار میں آکر پھر سے پرانا نظام نافذ کرنا اب ناممکن ہے۔ کیوں کہ افغانستان میں آمریت کے دروازے مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آمریت کے ذریعے کوئی نظام نہیں چل سکتا۔ اس لیے حکومت سازی کے لیے باقاعدہ انتخابات ہوں گے اور اس کے نتیجے میں حکومت قائم ہو گی۔

شینکئی کروخیل کے مطابق الیکشن میں خواتین کے بھی بڑی تعداد میں ووٹ ہیں اور وہ اپنے اچھے برے سے متعلق بہتر جانتی ہیں۔ اس لیے ماضی جیسے نظام جس میں خواتین کے لیے کوئی کردار نہیں تھے، باقی ماندہ دنیا کے لیے بھی یہ نظام قابل قبول نہیں ہو گا۔

رکن اسمبلی شینکئی کہتی ہیں کہ افغانستان کی خواتین کو مکمل یقین ہے کہ عالمی برادری ایسے کسی بھی نظام کی حمایت نہیں کرے گی جس کا تجربہ افغانستان میں پہلے ہو چکا ہے۔

شینکئی کروخیل کہتی ہیں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق افغانستان کی 70 فی صد سے زائد خواتین نا خواندہ ہیں جس کی وجہ سے انہیں صحت، روزگار، معاشی طور پر با اختیار، سیاست میں کردار ادا کرنے اور گھریلو تشدد جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم وہ پُر امید ہیں کہ اب جبکہ افغانستان میں ایک نظام چل پڑا ہے اور ایسے حالات میں اسے مزید مضبوط کیا جائے گا۔

ایک نظر اس پر بھی

ماسکو کنسرٹ ہال حملے میں 143ہلاکتیں

روس کے دارالحکومت ماسکو میں ایک کنسرٹ ہال پر جمعہ کو ہونے والے حملے میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 143 ہوگئی ہے جبکہ 100 سے زائد افراد زخمی ہیں۔روس کی تحقیقاتی کمیٹی نے ہفتے کے روز یہ اطلاع دی۔ کمیٹی نے کہا کہ ایمرجنسی سروسز ماسکو اوبلاست میں کروکس سٹی ہال، دہشت گردانہ حملے کی جگہ ...

80 ہزار افراد نے مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ ادا کی

قابض اسرائیلی فوجوں  کی سختی کے باوجود رواں  سال رمضان کے پہلے جمعہ کو ۸۰؍ ہزار مسلمانوں   نے بیت المقدس میں  پہنچ کر نماز جمعہ ادا کی۔ قدس نیوز نیٹورک نے جو ویڈیوشیئرکئے ہیں  میں  دیکھا جاسکتاہے کہ جوق در جوق مغربی کنارہ، راملہ اور دیگر علاقوں  سے فلسطینی شہری پیدل اور بسوں ...

شہریت ترمیمی قانون پر امریکہ نے بھی اپنی تشویش ظاہر کردی

امریکہ اور نے ہندوستان کے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون پر عدم تحفظات کا اظہار کردیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ ہندوستان میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے نفاذ پر تشویش ہے۔ ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں کے سبب جان گنوانے والے فلسطینیوں کی تعداد 31272 ہوئی

غزہ پٹی پر جاری اسرائیلی حملوں سے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 31272 ہو گئی ہے۔ غزہ میں قائم وزارت صحت نے بدھ کو یہ اطلاع دی۔ وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی فورسز نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 88 فلسطینیوں کو قتل اور 135 دیگر کو زخمی کیا، جس سے گزشتہ اکتوبر میں اسرائیل اور حماس ...

غزہ میں امداد کیلئے قطار میں منتظر افراد کو پھر نشانہ بنایا گیا، 11 شہید

  انسانیت کی تمام حدوں  کو پار کرتے ہوئے اسرائیلی فوجوں  نے بدھ کو پھر بھکمری کے شکار ان پریشان حال لوگوں  کو نشانہ بنایا جو اپنے بچوں  کی پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے امداد حاصل کرنے کے مقصد سے قطار میں  لگے ہوئے تھے۔ بدھ کے اس حملے میں  ۱۱؍ افراد کی شہادت کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد ...

انڈونیشیا میں سیلاب اور چٹان کھسکنے سے تباہی، 19 افراد ہلاک ،متعدد زخمی

انڈونیشیا کے جزیرے سماترا میں مسلسل بارش نے سیلاب اور چٹان کھسکنے سے بڑے پیمانے پرتباہی ہوئی ہے۔ اس دوران 5سے زائد گھر دب گئے۔ مکانات کے ملبے سے12 لاشیں نکالی گئیں اور 7افراد کو شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچایا گیا۔ ملبے سے دیگر 6 افراد کو بحفاظت نکالا گیا جبکہ5 افراد اب تک ...