زرعی قوانین اور کسانوں کا احتجاج؛ حکومت کے ساتھ بات چیت ناکام؛ 14ڈسمبرکو ملک بھر میں مظاہروں کا اعلان، ریلائنس اور جیئو کا بائیکاٹ کا بھی اعلان

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 10th December 2020, 2:29 AM | ملکی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

بھٹکل 9 ڈسمبر (ایس او نیوز) ملک میں پچھلے پندرہ دنوں سے کسان زرعی قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے دہلی کے  سنگھو  بارڈر پر احتجاجی دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے  ہیں، اس تعلق سے8 ڈسمبر کو بھارت بند کا بھی اعلان کیا گیا تھا جس کا پورے ملک پر اثر نظر آیا۔ آخر یہ پورا معاملہ کیا ہے آئیے دیکھتے ہیں؛

رواں سال ستمبر میں مودی  حکومت کے منظور کیے گئے قوانین کے خلاف کسان تنظمیں احتجاج کرتے ہوئے منظور کئے گئے زرعی قوانین کی مخالفت کررہی  ہیں، اس تعلق سے حکومت کے مابین مذاکرات کے کئی ادوار بھی ہوئے لیکن بات چیت   نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی۔ بتاتے چلیں کہ بی جے پی حکومت نےگزشتہ دنوں پارلیمنٹ  میں 3 زرعی آرڈیننس پیش کرتے ہوئے انھیں منظور کروالیا تھا اور اب یہ قانون کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔

جب سے یہ زرعی قوانین منظور ہوئے ہیں،  پنجاب، ہریانہ اور دیگر ریاستوں کے کسان وقتاً فوقتاً احتجاج کررہے ہیں بعض اوقات ٹرینیں روک کر بھی مطالبات منوانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم نومبر کے آخری ہفتے میں یہ احتجاج مزید منظم ہوگیا اور بڑی تعداد میں کسانوں نے دارالحکومت نئی دہلی کا رُخ کرلیا۔ البتہ انتظامیہ نے کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے پہلے ہی روک دیا۔ اس دوران کسانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جس کے بعد کسانوں نے ملک کے دیگر شہروں کو دہلی سے ملانے والی اہم شاہراہوں کو ہی بلاک کرتے ہوئے دہلی کے سنگھو بارڈر پر ہی   دھرنے پر بیٹھ گئے  اوراعلان کردیا کہ  مطالبات کی منظوری تک وہ اسی طرح دھرنے پر بیٹھے رہیں گے اوراحتجاج ختم نہیں کریں گے۔

ان قوانین کو لے کر مودی حکومت کا کہنا ہے کہ  ان قوانین سے نجی سرمایہ کاری کے ذریعے زرعی شعبے کی ترقی ہو گی۔ ان قوانین سے شدید مشکلات کے شکار ایگریکلچر سیکٹر میں اصلاحات ہوسکیں گی اور ان سے  کسانوں کو اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ  کرنے کی آزادی حاصل ہو گی۔لیکن ان قوانین کو لے کر  کسانوں کو خدشہ ہے کہ ان قوانین کے ذریعے  وہ  سرکاری سر پرستی سے محروم ہوجائیں گے اور انہیں  دھنا سیٹھوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے گا جو ان کا نہ صرف استحصال کریں گے بلکہ رفتہ رفتہ ان کی زمینوں پر بھی قابض ہوجائیں گے۔کسانوں کا کہنا ہے کہ  سرکار کسانوں کی  نہیں کارپوریٹ گھرانوں کے مفاد اور منافع کی فکر میں دبلی ہورہی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں امبانی، اڈانی، ٹاٹا اور گوئنکا جیسے صنعت کار دال، چاول، آٹااور سبزیاں بیچنے لگے ہیں۔ پرانے کرانے کی دکانوں کی آمدنی پر ڈاکہ ڈالنے کے بعد اب ارب پتیوں کی بری نظر اناج اور سبزیوں کی کاشت پرٹکی ہوئی  ہے۔نئے قانون میں غذائی اجناس کو ضروری اشیاء کے زمرے سے ہٹانا سرمایہ داروں کو ذخیرہ اندوزی کی سہولت فراہم کرنا یہ سب کچھ   کارپوریٹ ساہوکاروں کے لئے کیا جارہا ہے۔ کسان  لیڈران کی مانیں تو مرکز کی مودی حکومت کسانوں کومسلسل دھوکے دے رہی ہے، اس نے عوام کو سچائی بتائے بغیر،جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہوئے کسان مخالف بل منظور کرالیے ہیں۔

ان زرعی قوانین کو واپس لینے کے مطالبے کے ساتھ جب 8 ڈسمبرکو بھارت بند کا اعلان کیا گیا تو  بڑے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، لیکن  اپنے آپ کو سیکولر پارٹیوں کی حامی کہنے والی کئی سماجی اور فلاحی تنظیمیں صرف زبانی دعوے کرتے نظر آئی   کہ ہم بھی کسانوں کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ان تنظیموں نے  نہ بند کا ساتھ  دیا اور نہ ہی ان تنظیموں نے کسی طرح کااحتجاجی مظاہرہ کیا۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ تنظمیں   بھارت بند کو ناکام بنانے کی  مرکزی حکومت کی کوششوں   کا بھرپور ساتھ دیتی نظرآئی۔کرناٹک کی بات کریں تو  بھارت بند کے موقع پر اکثر شہروں پر احتجاجی مظاہرے ہوئے، لیکن بعض علاقوں کو چھوڑ کر کہیں پر بھی بازاراور دکانیں بند نہیں رہیں، جس کو دیکھتے ہوئے کرناٹک کے وزیراعلیٰ  یڈٖی یورپا نے  کہا کہ بھارت بند کی کرناٹک کے عوام نے تائید نہیں کی۔ان کے مطابق  بشمول بنگلور ریاست کے کسی بھی شہر میں منظم طریقے سے بند نہیں منایاگیا جس  کا مطلب یہ ہے کہ  مودی نے کسانوں کی مخالفت میں کوئی فیصلہ نہیں کیا اور ریاست کے عوام مرکزی حکومت کے فیصلے کے ساتھ ہیں۔

یہ بات الگ ہے کہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی طرف سے کیا گیا ’ بھارت بند ‘ بڑی حد تک کامیاب رہا۔ بھارت بند سے کسانوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کی تحریک پنجاب تک محدود نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی ایک سیاسی جماعت کے اشارے پر ہورہی  ہے بلکہ اس میں پورا ہندوستان شامل ہے ۔ اکھل بھارتیہ کسان مہا سبھا کے مطابق ملک بھر  کے کسانوں کی ۵۰۰؍ چھوٹی بڑی تنظیموں نے  اس  بند میں حصہ لیا اور اپنا احتجاج درج کروایا۔ اس بند کا  اثر ملک کے ۲۲؍ صوبوں میں بطور خاص رہا جبکہ۲۴؍ اپوزیشن پارٹیوں نے  بند کی حمایت کی، کسان مہا سبھا کا دعویٰ ہے کہ اس  بند کو ملک کے ۹۰؍ کروڑ لوگوں کا ساتھ ملا اور ان لوگوں نے براہ راست اپنے اپنے طور پر بھارت بند کی حمایت کی۔

مگر ان سب کے باوجودمودی حکومت  اپنی ضد پر قائم ہے کہ وہ قوانین کو واپس نہیں لے گی، مگر اُدھر کسان بھی اپنی ضد پر آڑگئے ہیں کہ جب تک تینوں قوانین کو رد نہیں کیا جائے گا، ان کا احتجاج شدید تر ہوتا جائے گا۔ اب  بدھ کو ہوئی سرکار سے بات چیت ناکام ہونے کے بعد   تازہ اطلاع یہ ہے کہ اب کسانوں نے 14 ڈسمبر کو پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے، پریس کانفرنس میں کسانوں نے کہا ہے کہ وہ جیو JIO اور ریلائنس کابھی سارے ملک میں بائیکاٹ کریں گے، کسانوں نے یہ بھی کہا  کہ 12 ڈسمبر کو وہ ملک بھر کے ٹول پلازہ کو جام کردیں گے جبکہ  جئے پور۔ دہلی ہائی وے کو بند کردیں گے۔

بات چیت ناکام ہونے کے بعد مودی سرکار بہت بڑی مشکل میں گھرتی نظر آرہی ہے۔ سرکار کے لئے  مشکل یہ ہے کہ اگر حکومت  کسانوں کا مطالبہ مان کر نئے زرعی قوانین واپس لیتی ہے تو یہ نہ صرف اس کی شرمناک ہار ہوگی بلکہ اس بات کا اعتراف بھی ہوگا کہ یہ قوانین سرے سے غلط تھے۔ لیکن اگر مودی سرکار قوانین واپس نہیں لیتی تو برسوں کی انتھک محنت سے تراشا ہوا  ’’کسانوں کا مسیحا‘‘ کا نقاب وزیر اعظم کے چہرے پر سےاُتر جائے گا۔تجزیہ نگاروں کی مانیں تو  مودی جی کو  ایک اور ناقابل تلافی نقصان  یہ بھی ہوگا کہ  وہ لاکھوں کروڑوں سکھ ہمیشہ کیلئے بدگمان اور بر گشتہ ہوجائیں گے جنہیں بی جے پی بڑی مشقت سے مسلسل اپنے ہندوتوا کے نظریاتی شیشے میں اتارنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو  کہا جاسکتا ہے کہ  زرعی قوانین مودی حکومت کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے،  اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ  ہڈی کو واپس نکالتے ہیں  یا پھر اُسے اندر ہی نگلتے ہیں۔  بہرحال دیکھا جائے تو  کسانوں کا یہ اندولن  مودی سرکار کیلئے بہت بڑی اگنی پریکشا بن گیا ہے۔

ایک نظر اس پر بھی

راجستھان: اس مرتبہ نوجوانوں، خواتین، کسانوں، دلتوں و قبائلیوں کی حکومت بنے گی، الور میں پرینکا گاندھی کا خطاب

کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے پیر کے روز الور لوک سبھا سیٹ سے کانگریس امیدوار للت یادو کی حمایت میں عظیم الشان روڈ شو کیا۔ روڈ شو میں پرینکا کھلی چھت والی گاڑی میں سوار تھیں اور ان کے ساتھ راجستھان کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت، اسمبلی میں حزب مخالف لیڈر ٹیکارام جولی، ...

میرا نام اروند کیجریوال ہے، میں دہشت گرد نہیں ہوں، جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے وزیر اعلیٰ کیجریوال کا جذباتی پیغام

عام آدمی پارٹی کے رکن راجیہ سبھا سنجے سنگھ نے کہا ہے کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ نے جیل سے لوگوں کو پیغام بھیجا ہے کہ ’میرا نام اروند کیجریوال ہے، میں دہشت گرد نہیں ہوں۔‘ سنجے سنگھ نے کہا کہ مرکزی حکومت اروند کیجریوال کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کر رہی ہے۔ وزیر اعظم اپنی بدنیتی میں ...

سپریم کورٹ نے امانت اللہ کی پیشگی ضمانت کی درخواست مسترد کردیا

دہلی کے عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان کو پیر (15 اپریل 2024) کو سپریم کورٹ سے بڑا جھٹکا لگا ہے۔ سپریم کورٹ نے وقف بورڈ گھوٹالے سے متعلق معاملے میں امانت اللہ کو ای ڈی کے سامنے پیش ہونے کو کہا ہے۔ سپریم کورٹ نے پیشگی ضمانت کی مانگ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر ای ڈی کے ...

آر ایس ایس کو ملک کا آئین نہیں بدلنے دے گی کانگریس، کیرالہ میں راہل گاندھی نے چلائی عوامی رابطہ مہم

کانگریس کے سابق صدر اور کیرالہ کے وائناڈ سے لوک سبھا امیدوار راہل گاندھی نے 15 اپریل کو وائناڈ میں عوامی رابطہ مہم چلائی۔ اس مہم کے دوران راہل گاندھی کا جگہ جگہ شاندار استقبال ہوا۔ بیشتر مقامات پر لوگوں کا ہجوم امنڈتا ہوا دکھائی دیا اور کچھ مقامات پر راہل گاندھی رک کر لوگوں سے ...

کانگریس نے انتخابی تشہیر کے لیے جاری کیا ’ہاتھ بدلے گا حالات‘ نغمہ، عوام تک پہنچے گی پارٹی کی گارنٹیاں

 لوک سبھا انتخاب کے پیش نظر کانگریس لیڈران کی ریلیاں اور روڈ شو جاری ہیں۔ اس درمیان کانگریس نے پیر کے روز انتخابی تشہیر کے مقصد سے ’ہاتھ بدلے گا حالات‘ نغمہ جاری کر دیا ہے۔ کانگریس اس نغمہ کے ذریعہ پارٹی کے انتخابی منشور میں شامل ’پانچ نیائے‘ کے تحت دی گئی 25 گارنٹیوں کو ملک ...

اسرائیلی جہاز پر پھنسے 17 ہندوستانیوں سے ہندوستانی افسران کی جلد ہوگی ملاقات، ایران کی یقین دہانی

  ایران و اسرائیل کی کشیدگی کے دوران جہاں ایک جانب ہندوستانی اسٹاک ایکسچنج لڑکھڑا نے لگا ہے تو وہیں ایران کی جانب سے ہندوستان کے لیے ایک راحت کی خبر بھی ہے۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہندوستانی افسران کو اسرائیلی مقبوضہ جہاز پر سوار 17 ہندوستانیوں سے ملاقات کی جلد اجازت دے گا۔ ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...