شمالی کینراکے مشہور سیاسی لیڈران اپنے بچوں کو سیاسی اکھاڑے میں لانے میں ہوگئے ہیں بری طرح ناکام
کاروار،9؍اگست (ایس او نیوز) عام طور پر ملکی سیاست میں بڑے بڑے سیاسی لیڈران کی طرف سے اپنے بیٹیوں یا اپنی بیٹیوں کو سیاسی میدان میں متحرک کرنے اور انتخابی اکھاڑے میں اتارنے کے ساتھ انہیں کامیاب سیاست دان بنانے کی مثالیں سامنے آتی ہیں۔ اسی طرح مختلف ریاستوں کے لیڈران نے بھی اس طرح کی روایتیں قائم کی ہیں۔ ضلعی سطح پر بھی اس کی مثالیں مل سکتی ہیں۔
لیکن جہاں تک ضلع شمالی کینرا کی بات ہے یہاں پرسیاسی ناموری رکھنے والے بڑے لیڈران حالیہ برسوں میں اپنے بیٹوں کو اپنی سیاسی سلطنت کا وارث بنانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ اس وقت اگر حالات کا جائزہ لیں تو صرف ایک اننت اسنوٹیکر ہے جو اپنے مقتول والداور کانگریسی لیڈر وسنت اسنوٹیکرکی سیاسی وراثت سنبھالے ہوئے ہے۔ اور بڑی حد تک انہیں اپنا سیاسی وجود ثابت کرنے میں کامیابی بھی مل چکی ہے۔ مگراس وقت سرگرم سیاست میں مصرف دوسرے سیاسی لیڈران اپنے بیٹوں کو بھی متحرک کرنے میں اس طرح کی کامیاب نہیں ہوئے۔
دیشپانڈے کی سیاسی وراثت: ضلع شمالی کینرا میں سب سے زیادہ سینئر،تجربہ کار اور طاقتور سیاست دان کے طور پر اپنی پہنچان اور ساکھ رکھنے والے آر وی دیش پانڈے ہیں۔کبھی کانگریس اورکبھی جنتا دل سے وابستہ رہنے کے ساتھ اکثر و بیشتر یہ افواہیں بھی سنی گئی ہیں کہ وہ بی جے پی سے بھی قربت رکھتے ہیں اور کسی بھی مناسب وقت پر وہ باقاعدہ بی جے پی میں شامل ہو سکتے ہیں۔اب تک وہ ہلیال اسمبلی حلقے سے 8مرتبہ اسمبلی انتخابات جیت چکے ہیں۔ کانگریسی حکومت کی دوران وہ ضلع انچارج وزیر بھی ر ہ چکے ہیں اور اس وقت کانگریسی ایم ایل اے ہیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں جن میں سے ایک پرشانت دیش پانڈے کو انہوں نے عملی سیاست میں متحرک کرنے کی پوری کوشش کی۔
گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں کانگریسی امیدوار کے طور پر اسے میدان میں اتار بھی چکے ہیں۔ لیکن بی جے پی امیدوار کے سامنے انہیں شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔ پرشانت دیش پانڈے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انتخابی موسم کو چھوڑ کر دوسرے دنوں میں متحرک نہیں ہوتے۔ عوام کے ساتھ ان کا رابطہ یا عوامی مسائل حل کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔دیشپانڈے کے دوسرے بیٹے کوبھی سیاسی کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ اس سے دور دور ہی رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ دونوں بیٹے اپنے والد کے سیاسی حلقے سے بھی دور ہی رہائش پزیر ہیں۔اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ شمالی کینرا میں دیشپانڈے کی سیاسی وراثت سنبھالنے کے لئے ان کے بچوں میں سے کوئی بھی تیار نہیں ہوسکا ہے۔ آنے والے دنوں میں کسی موقع پراگر آر وی دیشپانڈے اپنی سیاسی ساکھ کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنے بیٹے پرشانت کو ایم ایل سی بناکر پچھلے دروازے سے ریاست کے سیاسی ایوان میں داخل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ الگ بات ہوگی۔
مارگریٹ آلوا بھی ناکام: شمالی کینرا کی سیاست میں دوسرا بڑااور بااثر نام مارگریٹ آلوا کا ہے۔حالانکہ ان کا تعلق منگلورو جنوبی کینرا سے ہے، مگر و ہ ضلع شمالی کینرا کی سیاست میں ایک عرصے تک سرگرم رہی ہیں۔ یہاں سے انہوں نے کانگریسی امیدوار کے طور پر پارلیمانی انتخاب بھی جیتا ہے۔ ان کے کئی بیٹے بیٹیاں ہیں مگر ان میں سے صرف ایک بیٹے نویدیت آلواکو عملی سیاست میں لانے اور ضلع کے سیاسی لیڈرکی شکل میں ابھارنے کی کوشش جاری رکھی ہے مگر تاحال اس میں پوری طرح کامیابی نہیں ملی ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں نویدیت آلوا کو سرسی حلقے سے کانگریسی امیدوارکے طور پر میدان میں اتارنے کی بھی کوشش مارگریٹ آلوا اور ان کے حامیوں کی طرف سے ہوئی تھی،مگر ٹکٹ نہ ملنے سے یہ سپنا پورانہیں ہوا۔
گزشتہ مرتبہ ریاست میں کانگریسی حکومت کے دوران نویدیت کوکرناٹکا کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کی چیرمین شپ دی گئی تھی۔ اس سے ہٹ کر نویدیت کا کوئی سیاسی وجود ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ نویدیت کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے کہ وہ عوامی مسائل اور عوامی رابطے سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ سیاسی موجودگی دکھانے کے لئے اس شخص نے کبھی کوئی خاص ہلچل نہیں دکھائی ہے۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مارگریٹ آلوا کی سیاسی وراثت ضلع شمالی کینرا میں باقی رکھنے میں نویدیت آلوا کو کسی قسم کی کامیابی مستقبل میں ملنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔
شیورام ہیبار پوری طرح ناکام: فی الحال ضلع شمالی کینرا میں اپنی سیاسی ساکھ مضبوط کرنے میں موجودہ ضلع انچارج وزیر شیورام ہیبار بہت ہی تیزی سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ اس میں ان کی اپنی ذاتی خوبیوں اور صفات کا بڑا اہم کردار ہے۔ وہ عوامی مسائل حل کرنے اور اپنے سیاسی اثر و رسوخ کے ساتھ عوام سے قریب رہ کر ان کی باتیں سننے کے لئے مشہور ہیں۔ چاہے وہ جس پارٹی کی ٹکٹ پر بھی الیکشن جیت جائیں، اپنے حلقے کے لئے ترقیاتی کام انجام دینے میں ان کی دلچسپی نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان کا گرویدہ بنادیا ہے۔ اس لئے وہ عوامی مقبولیت کے نئے عروج کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔
لیکن ان کے بیٹے کا حال بھی کچھ جدانہیں ہے۔ دیشپانڈے کے بعد دوسرے نمبر پرضلع شمالی کینرا میں اپنی مضبوط سیاسی سلطنت بنانے کی طرف بڑھتے ہوئے شیورام ہیبارکے بیٹے کو عملی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ان کاعوام سے رابطہ اور عوامی مسائل میں دلچسپی بالکل نہیں ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ شیورام ہیبار کی سیاسی وراثت سنبھالنے کے لئے ان کا اپنا بیٹا بھی تیار نہیں ہوسکا ہے۔
امید کی ایک کرن: ضلع کے سیاست دانوں میں ایک نام ایم ایل سی گھوٹنیکرکاہے جو یہاں کی سرگرم سیاست میں ایک حد تک معروف ہے۔اور ایس ایل گھوٹنیکرہی وہ سیاست داں ہے جنہوں نے نچلی سطح پر اپنے بیٹے کو عملی سیاست میں آگے بڑھانے کی مہم میں تھوڑی سی کامیابی حاصل کی ہے۔انہوں نے دو مرتبہ اپنے بیٹے کو اے پی ایم سی صدارتی انتخابات میں کامیابی دلوائی ہے۔اور یقینایہ اپنے بیٹے کو سیاسی میدان میں آگے بڑھانے کے لئے ایس ایل گھوٹنیکر کی جان توڑ کوشش کا نتیجہ ہے۔اس لئے ضلع کے موجودہ سیاست دانوں میں گھوٹنیکر ہی وہ واحد شخص ہے جو اپنے بیٹے کا سیاسی مستقبل بنانے میں پوری طرح سنجیدگی سے سرگرم ہے اور ایک حد تک اس میں کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔