بھٹکل کے مشہور ڈاکٹر میراں دامودی انتقال کرگئے؛ انگریزی ادویات دینے والے ڈاکٹر میراں ہیوپتھی سے کیسے متاثر ہوگئے تھے ؟
بھٹکل 8 جون (ایس او نیوز) بھٹکل کے مشہور و معروف ڈاکٹر محمد میراں دامودی (68) مختصر علالت کے بعد اتوار 6 جون کی صبح اپنے خالق حقیقی کی آواز پر لبیک کہہ گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
ڈاکٹر صاحب کے انتقال پر ان کے ایک دوست نقاش نائطی نے اپنے کچھ تاثرات پیش کئے ہیں، جنہیں قارئین کی معلومات کےلئے یہاں پیش کیا جارہاہے۔
ہمارے ہر دلعزیز دوست ڈاکٹر میراں شافی امراض تھے بلاری میڈیکل کالج سے انگریزی ادویات کی ایم بی بی ایس ڈگری حاصل کرتے ہوئے،انہیں سقم تفتیش میں کالج کی طرف سے تمغہ متمیز گولڈ میڈل ملا تھا۔
بھٹکل میں انکی طبی سروس کے ابتدائی دن تھے جب ہمارے ایک مربی و دوست ڈاکٹر بدرالحسن معلم علیہ الرحمہ کے بڑے صاحب زادے دو تین روز سے بخار کے شکار تھے ڈاکٹر بدرالحسن ھیومیوپتھی طب کے ماہر بھی تھے لیکن انکی دی ہوئی دوائیوں سے انکے فرزند شفایاب نہیں ہوپارہے تھے۔ ہم نے بدارلحسن معلم کو قائل کرتے ہوئے ڈاکٹر میراں کو انکے گھر بلوانے کا انتظام کیا۔ ڈاکٹر میراں اپنے اسکوٹر پر آنے کے باوجود، جیسے گھوڑے پر سوار آئے تھے اور مریض کی جانچ کے بعد جلدہی واپس لوٹنا چاہتے تھے۔لیکن بدرالحسن (مرحوم) کا اصرار انہیں چائے پلاکے ہی بھجنے کا تھا۔ ڈاکٹر بدرالحسن نے کہا تمہاری تھکاوٹ دور کرنے کے لئے تمہیں ہومیوپتھی کی ایک دوائی دیتا ہوں۔ ڈاکٹر میراں نے ذرا، بے تکلفی میں ہومیوپتھی طریقہ علاج پر طنز کستے ہوئے کہا کہ آپ کی ہومیو پتھی دوائی آج کھائیں گے تو اگلے ہفتہ شاید اسکا اثر محسوس ہو۔ اگر آپ کی ہومیوپتھی دوائی زود اثر ہوتی تو آپ کے بیٹے کو شفایاب کرانے انگریزی ادویات کے ماہر کوبلایا نہیں جاتا۔ ڈاکٹر بدالحسن ،ڈاکٹر میراں کو اپنے ہاتھ کا ہنر ہومیو کی فوری شفایابی ثابت کرنا چاہتے تھے۔ تھوڑی دیر دوستانہ ماحول میں تگ و دو کے بعد یہ طے پایا کہ وہ ڈاکٹر میراں کو اپنی کوئی مخصوص ہومیو پتھی دوائی کا ایک ڈوس کھلائیں گے اور اندر سے چائے بن کر آنے تک ڈاکٹر میراں کی طبیعت میں پائی جانے والی تھکاوٹ یا کسلان ختم نہ ہوئی تو وہ آئندہ سے ہومیو پتھی کا اپنا علاج معالجہ بند کردیں گے۔
ڈاکٹر بدرالحسن کی دوائی کھاکر چائے کے انتظار میں گپ شپ کرتے ہم بیٹھے تھے۔ چائے اور بسکٹ آنے پر اس کی چسکیاں لے رہے تھے کہ اچانک ڈاکٹر میراں نے ڈاکٹر بدرالحسن معلم سے پوچھا یہ کونسی جادوئی دوائی کھلائی تھی آپ نے، میں بالکل صبح سویرے کا اٹھا نہایت ہلکا پھلکا فریش محسوس کررہا ہوں۔ یہیں سے ڈاکٹر میراں ہومیوپیتھی طریقہ طب سے متاثر ہوئے اور ڈاکٹر بدرالحسن سے کچھ ہومیوپتھی ادویات اور کتابیں لے جاکر، ہومیو طب پر دسترس حاصل کرلی اور زندگی کے آخری لمحات تک اپنے انگریزی ادویات کے ساتھ ہومیو طب کو بھی ساتھ لئے، اپنے مریضوں کو شفا یاب کرتے رہے۔ بلکہ 80 کے دہے کے ان ایام میں ہومیوپیتھی طب کو انگریزی ادویات کی جدت پسندی میں ڈھال کر، اپنے مریضوں کو ہومیو پتھی کی دوائی، خالی ملنے والی کیپسول میں بھر کر انگریزی ادویات کی شکل میں اپنے مریضوں کو دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ آج کل کے مریض انگریزی ادویات کے اتنے قائل ہوگئے ہیں کہ انہیں ہزار سمجھاکر ہومیوپتھی دوائی دو تو انہیں انکے اعتماد میں کمی کے باعث ہومیو پتھی دوائیاں اثر نہیں کرپاتی ہیں وہ انگریزی والی زود اثر کیپسول ہی مانگتے پائے جاتے ہیں اس لئے میں نے ممبئی سے مختلف رنگوں والی خالی کیپسول منگوا رکھی ہیں۔ایسے انگریزی ادویات عاشقوں کو ہومیو پتھی دوائی خالی کیپسول میں بھرکے دیتا ہوں اور انکے جھوٹے انگریزی ادویات بھرم سے وہ شفایاب بھی ہو جاتے ہیں۔
ان کی بہترین تشخیص مرض کا ایک واقعہ جو ہم کبھی بھول نہیں پائے ہیں۔اس کا تذکرہ آج ان کی موت کی خبر سن کر کرنا چاہتے ہیں 80 کے اوائل ہی کا واقعہ ہے ہمارے دو تین سالہ بھتیجے مہلک بخار کے شکار قریب المرگ ہوگئے تھے ان ایام میں ڈاکٹر سریش کی علاقے میں طوطی بولتی تھی اور بھتیجے کو انہی کا علاج چل رہا تھا دو تین دن کے علاج کے بعد اس نے بچے کے صحت یاب ہونے کی امید چھوڑ کر منگلور لیجانے کا مشورہ دیا ۔ان ایام میں مریضوں کو منگلور لیجانے کا رواج عام نہ تھا اور مینگلور لیجانے کے لئے ایک دو گاڑیاں ہی دستیاب تھیں۔ اس دن گاڑی نہ مل پانے کی وجہ سے دوسرے دن مینگلور لیجانا طے پایا تھا۔ بے سدھ پڑے بچے کو دیکھنے رشتہ دار جمع ہورہے تھے کئی رشتہ داروں کی سفارش پر ڈاکٹر میراں کو بلوایا گیا۔ اس وقت ڈاکٹر میراں نے بچے کو دیکھتے ہی کہا کہ یہ نمونیہ کے آخری درجہ کا مرض ہے ۔ اور انشاءاللہ بچہ کو صحت یاب کرایا جاسکتا ہے لیکن ان کی عادت کچھ شروط پہلے رکھنے کی، اس کے مطابق انہوں نے کہا اس شرط پر وہ علاج شروع کرسکتے ہیں کہ کل صبح تک کچھ افاقہ ہوا تو آپ اسے مینگلور لیجانا کینسل کریں گے اور اگر کچھ افاقہ نہ ہوا تو بے شک مینگلور لے جاسکتے ہیں۔ ہم گھر والوں نے مشورہ سے ان کا علاج شروع کیا اور الحمدللہ انہوں نے اس وقت انگریزی ادویات کے ساتھ ہومیو پتھی ادویات بھی دیتے ہوئے، تقریبا قریب المرگ ہمارے بھتیجے کو نہ صرف بفضل خدا صحت یاب کیا بلکہ آج وہ کئی بچوں کا باپ بنتے ہوئے شہر دوبئی میں مصروف معاش ہے۔
اللہ نے مرحوم ڈاکٹر میراں کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی لیکن انکی صاف گوئی یا حق گوئی سے لوگ ان سے دور رہنے میں بھی اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ اس لئے انکے مطب میں مریضوں کا تانتا نہیں رہتا تھا لیکن مضمن سقم والے انہی کے پاس آتے تھے۔ چونکہ یہاں وہاں دھکے کھائے مریض ہی زیادہ انکے پاس آتے تھے اس لئے وہ ہومیو دوائی کے بھی ٹھیک ٹھاک پیسے لیتے تھے۔ کہتے تھے ہم دوائی کی قیمت کے حساب سے تھوڑی نا فیس لیتے ہیں بلکہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر انہیں صحت یاب کرنے کے پیسے لیتے ہیں۔ کہتے تھے کم پیسہ سے مریضوں میں ڈاکٹر کی وقعت بھی کم ہوجاتی ہے الغرض اللہ نے انکے ہاتھ میں شفا رکھی تھی ۔ بدنی علاج کے علاوہ اپنی گوگل معلومات کے بل پر دینی اعتبار سے قال الاللہ اور قال الرسولﷺ روحانی علاج خوب تر کیا کرتے تھے۔ چونکہ وہ حق گو اور صاف گو تھے انکا حلقہ احباب اتنا وسیع نہ تھا جتنا ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے انکا حق تھا۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ مرحوم ڈاکٹر میراں کی بھرپور مغفرت فرمائے، قبر و برزخ کے مراحل کو ان کے لئے آسان فرمائے اور جنت کے اعلی مقام کو ان کے لئے محجوز رکھے۔ چونکہ آج اس موقع پر قوم کے نامور خدمتگار ڈاکٹر بدرالحسن مرحوم کا بھی تذکرہ آیا ہے اس لئے یا رب تو انکی بھی بھرپور مغفرت فرمادے اور اس کورونا وبا کے دوران جتنے بھی ہمارے علاقے والے انتقال کرگئے ہیں ان تمام کی بھرپور مغفرت فرما ۔ واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ