کنڑا روزنامہ ’پرجاوانی‘ میں شائع شدہ ریاست کے مشہور سائنس دان ناگیش ہیگڈے کے مضمون کا ترجمہ ساحل آن لائن کے قارئین کے لئے یہاں پیش کیاجارہاہے۔
ٹھیک 17برس قبل یعنی 2003میں اسی چین کے گوانگوڈونگ نامی شہر میں ، یہی کروناوائرس نے، اسی طرح جنگلی جانوروں کے گوشت مارکیٹ سے پیدا ہوکر بیجنگ شہر میں قیامت ڈھایا تھا۔ اس وقت بھی وہیں سے دنیا بھر کے 26ممالک میں پھیلتے ہوئے تجارتی میدان کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ تب اس کو ’سارس ‘ کانام دیاگیا تھا۔ سیوئیر ریسپریٹری سنڈروم یعنی عمل تنفس کی خطرناک بیماری کے نام سے مشہور ہوکر 774لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنا تھا۔
اسی وقت اس بیماری کے لئے دوائی یا انجکشن کی تیار کئے تھانا؟ اسی کو اب کیوں استعمال نہیں کرسکتے ،ایساکئی لوگ پوچھ رہے ہیں ۔ کرونا ،کھانسی پیداکرنے والی فیملی سے تعلق رکھنے والا وائرس ہے۔ (کرونا کامطلب تاج یا سہراہے۔ متعلقہ وائرس کے جسم پر لگے ہوئے کانٹے،ملکہ اور رانی کے تاج پر سجے ہوئے تاروں کی مانند نظر آتےہیں)۔ وہ اپنے بچاؤ کے لئے وقفہ وقفہ سے اپنا ظاہری روپ بدلتے رہتاہے۔
کسی بھی طرح کے وائرس کے علاج کی دوائی تیار کرنے ماہرین کو کم سے کم دومہینوں کی مہلت چاہئے۔ وہ سو ڈیڑھ سو لوگوں پر تجربہ کرتے ہیں پھر جب وہ نتیجہ خیز ثابت ہونے کی تصدیق ہوتی ہے تو دوسرے مرحلے میں ہزار دو ہزار مریضوں پر تجربہ کیاجاتاہے۔ یہ سب ہونے تک دوسال لگ ہی جائیں گے۔ اس کے بعدبڑے پیمانے پر انجکشن کی تیاری شروع ہوتی ہے۔
سارس وائرس کے دوران میں انجکشن آنے سے پہلے ہی وائرس کا اثر خود بخود کم ہوگیا تھا۔ اس دوائی کا استعمال اب ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اب وائرس کا روپ بدل گیا ہے۔ ’کرونا-2‘ نامی نیا وائرس آیا ہے۔ اس کےلئے دوسری دوائی تیاری کرنی پڑے گی، کوششیں جاری ہیں۔ لیکن نئی دوائی تیار ہوکر ہمیں دستیاب ہونے تک یہ وائرس غائب ہوسکتاہے یا پھر نیا روپ لےکر سر اٹھا سکتاہے۔
اب ’کرونا کے لئے دوائی کیوں نہیں ‘کا سوال غیر ضروری ہوجاتاہے۔ امریکہ میں فلو ، بخار (انفلوئنزا) کا انجکشن ہونے کے باوجود گزشتہ برس وہاں 18ہزارلوگ فلو سے موت کا شکار ہوئے ہیں۔ (بھارت میں اس بخار سے سالانہ صرف 1،103لوگ مرتےہیں ، ہم بڑے مضبوط لوگ ہیں)۔وہاں کووڈ کے لئے ہلاک ہونے کی تعداد ابھی تک 20نہیں ہوئی ہے، ہمارے ملک میں دوائی کے بغیر صرف نگرانی سے شفا ہونے والے مرض ڈائریا سے ہردن قریب 250معصوم بچے مرتے ہیں۔کیا دوائی ہوتو ہوجائیگا؟ پاگل کتے کے کاٹنے سے ہونےو الی بیماری ریبس کے لئے مصدقہ علاج موجود ہے، سوفی صد شفا ہوسکتاہے، مگر ہمارے ملک میں ہر سال قریب 20 ہزار لوگ ریبس سےمرتے ہیں۔
ٹی بی جیسی بیماری کی شفایابی کے لئے کئی ساری دوائیاں دستیاب ہیں، اس کے باوجود ہرسال ساڑھے چار لاکھ لوگ (یعنی ہردن 1200 لوگ)ہلاک ہوتےہیں۔ ویسے روزانہ ہو نے والے حادثات ،اس سے ہونے والی قومی بےعزتی پر سر خراب نہ کرنے والا ہمارا سماج ، ایک معمولی کرونا وائرس کے لئے اتنا ناٹک کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
دیکھا جائے تو کرونا بہت ہی کمزور وائرس ہے، وہ ہوا میں خود بخود نہیں پھیلتا، بچوں اور نوجوانوں کے لئے جان لیوا بھی نہیں ہے، صحت مند بزرگوں کی بھی جان نہیں لے سکتا۔ پھیپھڑوں تک ہی وہ محدود رہتاہے۔ ایبولہ، زیکا، نیفا، پولیو، بندر بخار ، دماغی بخار جیسی بیماریاں جتنی تکلیف دہ ہوتی ہیں اتنی تکلیف دہ تو نہیں ہے۔ لیکن ایسے وائرسوں کی ستم ظریفی دیکھئے ۔جو وائرس خطرناک ہوتے ہیں ان سے زیادہ پاگل وائرس بہت خطرناک ہوسکتےہیں۔ کیونکہ خطرناک وائرس جس جسم میں داخل ہوتےہیں اس کو قتل کرکے خود جی لیتےہیں۔ لیکن پاگل وائرس بہت دنوں تک جسم میں موجود رہتے ہوئے زیادہ لوگوں تک بیماری کو پھیلاتے ہیں۔ کرونا کو پاگل وائرس سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اسی طرح مقابلے کی ٹھان کر ہم بھی پاگل نہ بنیں۔
بھارت میں کورونا وائرس سے زیادہ مکھوٹوں کا پاگل پن ہی زیادہ پھیل رہاہے۔ سچائی یہ ہےکہ بخار میں مبتلا ایک شخص تمہارے چہرے کے سامنے آکر بوسہ دیتا ہے یا چھینک مارتاہے تو ہی وائرس تمہیں چھولیتاہے۔ وہ ایسے ہی ہوا میں نہیں اڑتا۔ مریض چھینک مارتاہے تو تم ماسک پہن کر بھی کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ آنکھوں کی پلکیں ، پیشانی ، گال، کان پر وائرس بیٹھا ہوگا۔ تم اس کو صاف کرکے بس پر چڑھیں گے تو تمہارے ہاتھوں پر لگا وائرس اور ایک کو لگ سکتاہے۔
جب خود تم مریض ہو یا اسپتال کاعملہ ہو تو لازماً ماسک پہنیں ۔ دھواں ، دھول کے لئے بھی اچھا ہے۔ اگر تمہیں بخار نہیں ہے تو خوف کا مکھوٹا پھینک کر ہاتھ اور منہ پاکیزہ رکھیں۔ (ایساکرنا ہر معنی میں اور ہمیشہ کے لئے بھلائی ہے)۔ معمولی کھانسی اور زکام بھی ہوتو نظر انداز نہ کریں۔ دوگنا ہوشیاری برتیں۔ کرونا کے متعلق مصدقہ جانکاری چاہئے تو WHOکے مصدقہ ویب سائٹ دیکھیں۔ جہاں ناسور کی طرح پھیلنے والے خوف کے وائرس کو ’ایپی ڈمک ‘(وباء)نہیں بلکہ ’انفوڈیمک ‘(افواہ یا دہشت )کا نام دیاہے۔
سوشیل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جارہے خوف کے وائرس کی روک تھام کے لئے یوٹیوب، ٹیوٹر، فیس بک جیسے ویب سائٹسں دن رات کوشاں ہیں۔ من گھڑت خبریں جیسے شراب سے علاج، گوبر سے علاج سے شفاہونے کی شرارت کرتے رہتے ہیں۔ ایک خبر کو وائر ل کرنے کے بعد پیدا ہونے والی مرحلہ وار دشواریوں سے وہ خود لڑتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود شرارتی خبروں ، ڈھونگی تصویروں کے گاہک زیادہ ہونے کی وجہ سے وہی ان کے لئے خون چوسنے والے شیطان بن جاتےہیں۔ ادھر سنجیدہ اخبارنویس کو کوئی خبر شائع کرنا کانٹے پر چلنے کے برابر ہوتاہے کیونکہ وہ نہ سنسنی پھیلا سکتےہیں اور نہ ہی سچی خبروں کو چھپا سکتےہیں۔ چین والوں سے ، ککیشین (گورے ) والوں سے زیادہ ہم بھارتیوں میں بیماریوں کے انسداد کی قوت زیادہ ہے۔مگر ہمیں اپنے اندر ایسی قوت پیدا کرنی ہے جو جھوٹی خبروں کی روک تھام کرسکتے۔
17برس قبل ، سارس کے متعلق اسی کالم میں کرونا وائرس کے تعلق سے جو باتیں لکھی تھیں اس کو دہرانامناسب محسوس ہوتاہے۔ بندربخار میں مبتلا ہونے پر یا ٹی بی ہونے پر کوئی بھی ماسک نہیں پہنتا۔ کیونکہ ہمیں اس تعلق سے کوئی فکر نہیں ہے۔ یہ مرض ہماری عوام کو پہنا ئے جانےوالے مکھوٹوں سے ہی ہم میں خوف پیدا کررہے ہیں۔ ہاں ! ٹی بی کی اہمیت کو نظر انداز کر نے پر کہیں مکھوٹوں سے ہی خطرہ نہ ہو جائے۔