ہندی زبان کو مسلط کرنے کی کوشش غیر دانشمندانہ اقدام
بنگلورو،18؍ستمبر(ایس او نیوز) حال ہی میں ”یوم ہندی“ کے موقع پر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی طرف سے ”ایک ملک ایک زبان“ کا فارمولہ پیش کئے جانے کے بعد سے خاص طور پر ملک کی جنوبی ریاستوں میں اس کی سخت مخالفت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے،اسی دوران بنگلور شہر کے کئی دانشوروں کا بھی کہنا ہے کہ بلا سوچے سمجھے اور تعصب کی بنیاد پر ہندی زبان کی مخالفت کرنا جہاں غلط ہو سکتا ہے وہیں مرکزی حکومت کی طرف سے ملک کی ہر ایک ریاست اور علاقہ پر ہندی کو مسلط کرنے کے رویہ کو بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا-دانشوران کا کہنا ہے کہ اس بات پر اصرار کیا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے ”ہندی“ زبان کو قومی زبان کے طور پر مسلط کئے جانے کا اقدام ناصرف دوسری زبانوں کے حقوق کی پامالی کے مترادف ہے بلکہ یہ ایک ایسا قدم ہے جو دوسری تہذیبوں کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہے اور یہ ملک کے جمہوری تانے بانے کو نقصان پہونچانے والا ہے-ریاست کے ایک معروف دانشور کا کہنا ہیکہ ”ہمیں اس معاملہ کو ایک وسیع نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے، اس ملک کو ایک اکثریتی ریاست بنانے کی سازش کی جا رہی ہے اور اس کے لئے مختلف ریاستوں اور وہاں کے لوگوں کے اختیارات کو ختم کیا جا رہا ہے-ہندی زبان کا تسلط جہاں دوسری زبانوں کے حقوق کی پامالی ہے وہیں ایک اور کوشش یہ بھی کی جا رہی ہے کہ ہندوستان کو ایک ہی مذہب کا حامل ملک بنایا جائے، اقتصادی اور معاشی اعتبار سے بھی ریاستوں کے حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے اور اس کے لئے ایک ہی ٹیکس کا نظام لاگو کیا گیا ہے-یہاں ایک بڑی تاریخ موجود ہے، ہندی زبان کا تسلط اور اس کے خلاف تحریک یہ دونوں ہی نئے نہیں ہیں، ہندی زبان کو دوسری زبانوں کے مقابلہ میں برتر ثابت کرنے کی کوششیں تقریاً چالیس سالوں سے ہو رہی ہیں اور اب اس کا وقت آچکا ہے کہ ہم پوری قوت کے ساتھ اس کی مخالفت کریں اور پہلے سے زیادہ زور دار انداز میں اس تحریک کو چلانے کی ضرورت ہے“-