یونان اور ترکی کی مشترکہ سرحدوں پر مہاجروں کی کسمپرسی
روم، لندن،7؍مارچ(ایس او نیوز؍ایجنسی) یونان اور ترکی کی مشترکہ سرحد پر جمعہ کے روز بھی ترکی کی طرف سے آنسو گیس شیلز پھینکے جانے اور یونانی سکیورٹی فورسزکی طرف سے پناہ کے متلاشی افراد کو طاقت کے زور پر یونانی سرحدوں میں داخلے سے روکنے کی کوششیں جاری رہیں۔
نشریاتی ادارے اسکائی نے یونانی علاقے کستانیز کی فوٹیجز شائع کی ہیں جن میں آنسو گیس سے دھندلائے بادل دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہ یونانی علاقہ ہے جہاں تارکین وطن پناہ کے حصول کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس جگہ انتیس فروری سے جھڑپوں اور پُر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ترکی کے مقامی میڈیا نے بتایا کہ پانچ ہزار کے قریب مہاجرین پازارکول سرحد عبور کرنے کے منتظر ہیں۔
ترکی نے جمعرات کی شب سے یونان سے ملحقہ بحری سرحدی علاقے میں ایک ہزار پولیس اہلکاروں پر مشتمل مضبوط اسپیشل فورس کی تعیناتی شروع کردی تھی۔ یہ اسپیشل فورس اُس یونٹ کا حصہ ہے جو دریائے ایوروس، جو ترکی میں میرک کے نام سے جانا جاتا ہے، پر کشتیوں پر گشت کرے گی۔ اس کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ مہاجرین واپس ترکی کی سرحدوں کی طرف نہ لوٹیں۔ اُدھر یونانی وزیر اعظم کریاکوس مٹسوتاکس اپنے بارڈر پر سخت پہرے لگائے پوری کوشش کر رہے ہیں کہ مہاجرین یونانی سرحدوں میں داخل نہ ہو پائیں۔ یونانی حکومت کے اقدامات کو یورپی یونین کی تائید و حمایت حاصل ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ان پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
جمعرات کو ایتھنز حکومت نے اعلان کیا تھا کہ یکم مارچ کے بعد سے غیر قانونی طور پر یونان کے شمالی شہر سیرس میں داخل ہونے والے مہاجرین کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ ہزاروں افراد ترکی کے راستے یونان پہنچ گئے ہیں ، بہت سے مہاجرین سمندری راستے سے لیسبوس اور دیگر یونانی جزیروں تک پہنچ چُکے ہیں۔ انقرہ اور ایتھنز ایک دوسرے پر الزامات عائد کررہے ہیں کہ ان کی مشترکہ سرحدوں پر مہاجرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں حالیہ دنوں میں ان مشترکہ سرحدوں پر سکیورٹی فورسزاور مہاجرین کے مابین جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
دریں اثناء یونانی وزیر برائے امور مہاجرت نے کہا،'' ہمارا مقصد مہاجرین کو واپس ان کے وطن بھیجنا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یکم جنوری 2019 ء سے قبل ملک میں داخل ہونے والے تارکین وطن جو جزیروں پر رہائش پذیر ہیں، ان کو آئندہ دنوں میں یونان کے مین لینڈ یعنی شہروں کی طرف منتقل کر دیا جائے گا۔ یونان نے یکم مارچ کو اعلان کیا تھا کہ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کے یونانی سرحدوں تک پہنچ جانے کے سبب حالات سنگین ہو گئے ہیں اس لیے اب آئندہ ایک ماہ تک پناہ کے متلاشی افراد کی پناہ کے لیے کوئی ایک درخواست بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ ایتھنز کے اس اعلان کی انسانی حقوق کی ایجنسیز نے سخت مذمت کی ہے۔