یورپی یونین کی طرف سے ترکی کو معاشی پابندیوں کی دھمکی
انقرہ،30؍اگست (ایس او نیوز؍ایجنسی) بحیرۂ روم میں ڈرلنگ کے معاملے پر ترکی اور اس کے پڑوسی ملک یونان کے درمیان تنازع بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔حتیٰ کہ اب یورپی یونین نے ترکی کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے یونان اور دوسرے پڑوسی قبرض کے ساتھ اپنے معاملات درست نہیں کئے تو اس پر نئی پابندیاں عائدکی جائیں گی جن میںکچھ سخت معاشی اقدامات بھی شامل ہوں گے۔
یورپی یونین کے سینئر سفیر جوزف بوریل نے جمعہ کو یہاں بیان دیا ہے کہ ’ بلاک ( یورپی یونین) ترکی کو گفتگو کا ایک سنجیدہ موقع دینا چاہتا ہے لیکن قبرض اور یونان کے ساتھ اس کے جو سنگین تنازعات جاری ہیں وہ فوجی اقدمات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں یونین اپنے دوست یونان ا ور قبرض کی مدد کرے گا۔‘‘ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جوزف بوریل نے کہا ’’ یورپی یونین کی جانب سے ترکی پر پابندی کا مطلب ہوگا کہ ہم اس کے بحیرۂ روم میں ڈرلنگ کرنے کے ا ختیارات کو محدود کر دیں گے۔ نیز گیس اور دیگر معدنیات کو لانے لے جانے کیلئے یورپی بندرگاہوں کے استعمال کی اجازت نہی دیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ ہم ہر اس شعبے میں ترکی پر قدغن لگا ئیں گے جہاں اس کی معیشت کا دارومدار یورپ کی معیشت پر ہوگا۔ ‘‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’’ ہماری نگاہ ہر اس سرگرمی پر ہے جو ہماری نظر میں ’ناجائز‘ ہے۔‘‘ بوریل کی یہ پریس کانفرنس برلن میں یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک اہم میٹنگ کے بعد ہوئی جس میں یونان اور قبرض کی ترکی کے خلاف مدد کرنےکے معاملے پر گفتگو ہوئی۔ واضح رہے کہ بحیرۂ روم کے جس حصے میں ترکی تیل اور گیس نکالنے کیلئے ڈرلنگ کر رہا ہے وہ دراصل لیبیا کی سرحد کے قریب ہے اور ترکی نے لیبیا حکومت سے اس معاملے میں معاہدہ کر ر کھا ہے۔ جبکہ یونان کا کہنا ہے کہ ترکی جس حصے میں ڈرلنگ کر رہا ہے وہ اس کی سمندری حدود میں آتا ہے۔
ایک روز قبل ہی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ترکی اور یونان کو اس معاملے میں گفتگو کے ذریعے کوئی راستہ نکالنے کی ہدایت دی تھی۔ ادھر ترکی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اقدامات سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹےگا۔ اس ڈرلنگ کے دوران ترکی کو بڑے پیمانے پر گیس کا ذخیرہ بر آمد بھی ہوا ہے جس پر یورپی ممالک کی نظریں تھیں۔
یہ یورپی یونین کا دوغلا پن ہے : ترکی
ادھر ترکی نے یورپی یونین کی اس دھمکی کو اسکا دوغلا پن قرار دیا ہے اور ایک بار پھر یہ ظاہر کر دیا ہے کہ وہ بحیرہ روم میں اپنے اقدامات جاری رکھے گا۔ ترکی کے نائب صدر فواد اقطائے کا کہنا ہے کہ ’’یہ یورپی یونین کا دوغلا پن ہے کہ ایک طرف تو وہ بحیرہ روم میں ترکی کی ڈرلنگ کے تعلق سے گفتگو کی بات کرتےہیں دوسری طرف ان کے پاس دوسرا پلان پہلے ہی سے تیار ہے۔‘‘ فواد اوقطائے نے سنیچر کو اس معاملے میں ایک ٹویٹ کرکے کہا ’’ ہم امن اور سفارت کی زبان کا استعمال بخوبی جانتے ہیں لیکن جب ترکی کے حقوق کی حفاظت کا معاملہ آئے گا تو ہم اس کیلئے ضروری اقدامات سے کوئی گریز نہیں کریں گے۔‘‘
واضح رہے کہ ترکی اور یونان دونوں ہی نیٹو کا حصہ ہیں اس لئے ترکی بھی یورپی ممالک کیلئے دوست کی حیثیت رکھتا ہے اور چونکہ وہ بھی جغرافیائی اعتبار سے یورپ ہی کا حصہ ہے اس لئے اس پرکسی طرح کی فوجی یا اقتصادی کارروائی کے تعلق سے یورپی یونین کو کئی بار غور کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک بیشتر یورپی ممالک نے اس معاملے کو گفتگو سے حل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔