یورپی یونین، ترکی کے ساتھ پناہ گزینوں کے معاہدے پر قائم
لندن /10مارچ (آئی این ایس انڈیا)ایک ایسے وقت پر جب ترکی اور یونان کی سرحد پر پناہ گزینوں کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے برسلز میں یورپی یونین کی قیادت سے ملاقات کی۔برسلز میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کے بعد یورپی کمیشن کی صدر ارسلا فان ڈیئر لائن اور یورپی کونسل کے صدر شارل مشیل نے کہا کہ سن 2016 میں پناہ گزینوں سے متعلق یورپی یونین اور ترکی کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا یونین اس کے تئیں اب بھی پر عزم ہے۔
ترکی کی حکومت اس معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان پہلے ہی کر چکی ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے فروری کے اواخر میں اعلان کیا تھا کہ اب ان کی حکومت یورپ کی طرف جانے والے پناہ گزینوں کو نہیں روکے گی۔ یہ اعلان سن 2016 کے اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس میں ترکی نے یورپ کی جانب بلا ضابطہ مہاجرت پر قابو پانے کا وعدہ کیا تھا۔
ترکی کے اس اعلان کے بعد بڑی تعداد میں مہاجرین یورپ میں داخل ہونے کے لیے ترکی اور یونان کی سرحد پر جمع ہوگئے جس کی وجہ سے یونانی سکیورٹی فورسز اور پناہ گزینوں کے درمیان پر تشدد جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔یورپی کمیشن کی صدر اْرسلا فان ڈیئر لائن کا کہنا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین اس معاہدے کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں۔جرمن چانسلر اینگلا میرکل کی حامی یورپی کمیشن کی صدر ارسلا فان ڈیئر لائن کا کہنا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین اس معاہدے کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں۔ برسلز میں ایک پریس کانفرنس سے بات چیت میں فان ڈیئر لائن نے کہا کہ مہاجرین اور یونان دونوں کو مدد کی ضرورت ہے، لیکن ترکی کو بھی حمایت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سے معاہدے کی راہ تلاش کی جا سکتی ہے۔انہوں نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پیر نو مارچ کی میٹنگ بنیادی طور پر یہ واضح کرنے کے بارے میں تھی کہ اس سلسلے میں دونوں فریق ماضی کو کس طرح سے دیکھتے ہیں اور ہم یورپی یونین، ترکی کے بیان کا کس انداز سے جائزہ لیتے ہیں، تاکہ اس بارے میں مشترکہ مؤقف اختیار کر سکیں کہ کہاں کن چیزوں کی کمی ہے اور اور کہاں چیزیں درست ہیں۔ترکی اور یونان کی سرحد پر پناہ گزینوں اور یونانی سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ طاقت کا بے جا استعمال قابل قبول نہیں ہے اور حکام کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی کارروائی تناسب کے اعتبار سے کریں۔ یورپی سرحدوں کے احترام کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق کا احترام بھی لازم ہے۔