عالمی برادری کی اپیل کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملے جاری
غزہ، 20؍ مئی (ایس او نیوز؍ایجنسی) عالمی برادری، امریکہ اور اسلامی ملکوں کی بار بار جنگ بندی کی اپیلوں کے باوجود فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔جس سے اب تک 237 فلسطینی شہید اور 1300 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جب کہ حماس کے راکٹ حملے 12 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے ہیں میڈیا رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں کشیدگی دوسرے ہفتے بھی جاری ہے جس میں اب تک اسرائیلی حملوں میں 237 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ شہدا میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ فلسطینیوں کے راکٹ حملوں میں 12 /اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔
العربیہ کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی بجلی بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسلحہ اور گولہ بارود ذخیرہ کرنے کیلئے بنائی گئی سرنگوں کو تباہ کرنے کا عمل پہلی ترجیح کے طور پر جاری رہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے فلسطینیوں کے راکٹ حملوں میں دو اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سخت جواب دینے کی دھمکی دی ہے۔ جنوبی اسرائیل میں یہودی کالونیوں کی قیادت سے ملاقات میں نیتن یاھو نے کہا کہ غزہ میں انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی مزید کئی روز جاری رہے گی۔
دریں اثنا امریکی وزیر خارجہ لائڈ آسٹن نے اپنے اسرائیلی ہم منصب بینی گینٹز سے ٹیلیفون پر بات چیت کرتے ہوئے غزہ میں تشدد کا سلسلہ فوری روکنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کاکہنا ہے بے گناہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی ہلاکتیں ناقابل قبول ہیں۔اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ کوئی شخص یا جگہ ہمارے حملوں سے محفوظ نہیں۔ ہمارے پاس غزہ میں کئی اہداف ہیں اور ہم ہرہدف کو نشانہ بنائیں گے۔
قبل ازیں منگل کو غزہ سے عسقلان کے علاقے میں داغے گئے راکٹ حملے میں دو اسرائیلی ہلاک اور کم سے کم 10 زخمی ہو گئے تھے۔
اسرائیل نے غزہ میں اپنی جارحیت جاری رکھتے ہوئے میڈیا دفاتر کو نشانہ بنانے کے بعد اب رفاہی تنظیموں کے دفتروں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے اور اس نے قطری ہلال احمر کے دفتر پر فضائی حملہ کیا۔اس حملے کی قطر کی وزارت خارجہ نے مذمت کی ہے۔
غزہ پٹی پر اسرائیل کی فورسز نے فضائی حملے میں قطری ہلال احمر (کیو آر سی ایس) کے دفتر کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 2 فلسطینی جاں بحق اور 10 زخمی ہوگئے۔ یہ اطلاع الجزیرہ کی رپورٹ میں دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق قطری ہلال احمر غزہ میں ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتی ہے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق امدادی کام کیلئے ٹیمیں بھیجنے کا اعادہ کرتے ہیں۔کیو آر سی ایس سکریٹری جنرل علی بن حسن الحمادی نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے جس پر اسرائیل نے دستخط کیے ہیں۔
قطر کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اسرائیل کی قابض حکومت ہلال احمر کی عمارت پر بمباری کی جبکہ فورسز فلاحی اور میڈیا کے اداروں کو نشانہ بنا رہی ہیں جو بین الاقوامی قانون، عالمی اقدار اور روایات کی خلاف ورزی ہے۔
اسرائیل کیخلاف اردگان کے بیان پر امریکہ چراغ پا
امریکہ نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے غزہ میں اسرائیلی حملے کے تناظر میں دیئے گئے،اْس بیان پر سخت تنقید کی ہے،جو امریکہ کے بقول یہودیوں کے خلاف ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ ترک صدر کی جانب سے حال ہی میں دیئے گئے یہود مخالف بیان کی مذمت کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ترک صدر اور دیگر ترک رہنماؤں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اشتعال انگیز بیانات سے گریز کریں۔
خیال رہے کہ ترک صدر نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف دہشت گردی کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ یہ اس کی فطرت میں شامل ہے۔
ان کا یہ بیان اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری لڑائی کے تناظر میں سامنے آیا تھا۔
صدر اردوان نے اپنے بیان میں اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ لوگ قاتل ہیں اور پانچ یا چھ سال کے بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔ یہ صرف ان کا خون چوسنے سے ہی مطمئن ہوتے ہیں۔
ترک صدر نے امریکہ کے صدر جوبائیڈن پر بھی اسرائیل کی سفارتی مدد کرنے پر تنقید کی تھی اور الزام لگایا تھا کہ امریکہ کے صدر کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے ہیں۔
ترک صدر کے حالیہ بیان کے بعد انقرہ اور واشنگٹن ڈی سی کے درمیان تعلقات میں تناؤ کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ ترکی ان چند مسلم اکثریتی ملکوں میں شامل ہے جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ لیکن ترک صدر نے اسرائیل فلسطین تنازع پر ہمیشہ فلسطین کی حمایت کی ہے۔
حالیہ اسرائیل فلسطینی کشیدگی میں بھی طیب اردوان نے تیز سفارتی کوششیں کی ہیں۔
ترک خبر رساں اداروں کے مطابق ترک صدر نے تمام متعلقہ اداروں اقوامِ متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے فلسطین کی حمایت کیلئے لگ بھگ 20 ممالک کے رہنماؤں سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔
رجب طیب اردوان نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس، روس، پاکستان، کویت، الجیریا اور دیگر ممالک کے رہنماؤں سے بات کی اور ان پر زور دیا کہ وہ غزہ، مسجداقصیٰ اور یروشلم میں فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں کے خلاف متحدہ مؤقف اختیار کریں۔
اس کے علاوہ ترک صدر نے اپنی جماعت جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ (اے کے) پارٹی کے حالیہ اجلاس سے خطاب میں بھی دنیا سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ فلسطین پر اسرائیلی حملوں کے خلاف کھڑے ہوں۔
رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ چاہے پوری دنیا مخالفت کرے لیکن ترکی اسرائیلی مظالم کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔
ترک صدر نے اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے بھی کہا تھا کہ وہ یروشلم میں امن کیلئے اقدامات اٹھائے اور ترکی ان اقدامات کی واضح حمایت کرے گا۔
یاد رہے کہ ترکی نے 1949 میں باضابطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے تعلقات قائم کیے تھے۔ تاہم ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ رہا ہے۔
ترک وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق ترکی نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے ساتھ باضابطہ طور پر تعلقات 1975 میں قائم کیے تھے اور وہ ان پہلے ممالک میں سے ایک تھا جس نے فلسطین کو تسلیم کیا تھا۔