نائب صدر ہند کے انتخاب میں ایک پھر اپوزیشن میں انتشارکھل کر ظاہر
نئی دہلی، 8؍اگست(ایس او نیوز؍ایجنسی)ملک کے 14ویں نائب صدر کیلئے 6 اگست کوووٹنگ میں بھاجپا کے امید وار جگدیپ دھنکڑ اور اپوزیشن کی مشترکہ امیدوار مارگریٹ آلوا کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں جگدیپ دھنکڑ کامیاب رہے۔18مئی1951 کو راجستھان کے چھوٹے سے گاؤں 'کٹھانہ' کے ایک عام کسان پریوار میں پیدا ہوئے شری جگدیپ دھنکڑ نے اپنی پرائمری تعلیم گاؤں میں اور اسکولی تعلیم سینک اسکول،چتوڑگڑھ میں پوری کرنے کے بعد راجستھان وشو ودیالیہ،جے پور سے سناتک کی تعلیم حاصل کی اور وکالت کا پیشہ چننے کے بعد راجستھان ہائی کورٹ میں وکالت بھی کرتے رہے۔سماج وادی بیک گراؤنڈ کے 71 سالہ جگدیپ دھنکڑ نے اپنی سیاسی باری راجستھان کی جھن جھنو لوک سبھا سیٹ جنتا دل کے ٹکٹ پر جیت کر شروع کی اوررکن پارلیمنٹ بننے کے بعد1989-91 کے دوران مرکز میں وی پی سنگھ اور چندر شیکھر کی سرکاروں میں وزیر رہے۔1991 کے چناؤ میں جنتا دل سے ٹکٹ نہ ملنے پر جگدیپ دھنکھڑ کانگریس میں چلے گئے اور 1993 میں کشن گڑھ سیٹ سے کانگریس کی ٹکٹ پر چناؤ لڑ کر رکن اسمبلی بنے اور پھر2003 میں کانگریس سے منہ موڑ کر بھاجپا میں شامل ہوگئے۔ جگدیپ دھنکڑ کو30جولائی 2019 کو اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند نے مغربی بنگال کا گورنر مقرر کیا تھا اور یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ہی ان کا وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے ساتھ ' 36' کا آنکڑہ رہا جو ان کے اس عہدے پر بنے رہنے تک جاری رہا۔آنکڑوں کے لحاظ سے دھنکڑ کی جیت پہلے ہی پکی نظر آرہی تھی۔جس طرح راشٹرپتی چناؤ کیلئے ووٹ کے وقت بھی اپوزیشن پارٹیوں میں اپنے امیدوار یشونت سنہا کے حق میں اتحاد نہ بن سکا اور انہیں ہار کا منہ دیکھنا پڑا،اسی طرح نائب صدر کے انتخاب میں بھی اپوزیشن ایک نہ ہو سکے۔یہاں تک کہ ترنمول کانگریس نے بھی انتخاب سے دور رہ کر ایک طرح سے جگدیپ دھنکڑ کی ہی حمایت کر ڈالی۔ممتا بنرجی نے کہا کہ اپوزیشن نے مارگریٹ آلوا کے نام پر فیصلہ کرتے ہوئے ترنمول کانگریس کو اعتماد میں نہیں لیا۔جس پرمارگریٹ آلوا نے ممتا کے فیصلے پر کہا تھا کہ یہ وقت انا یا غصہ کا نہیں ہے لیکن ممتا اپنے فیصلے پر قائم رہیں۔قابل ذکر ہے کہ شرد پوار کی رہائش گاہ پر ہوئی میٹنگ میں مارگریٹ آلوا کی امیدواری کا اعلان کرتے ہوئے شرد پوار نے کہا تھاکہ 17 اپوزیشن جماعتوں نے اتفاق رائے سے مارگریٹ آلوا کے نام پر فیصلہ کیا ہے۔لیکن ان کا یہ قول صحیح ثابت نہ ہوا۔جگدیپ دھنکڑ کو این ڈی اے کی جماعتوں کے علاوہ بیجو جنتا دل، وائی ایس آر کانگریس، انا درمک، تیلگو دیشم،شیو سینا،عآپ اور بسپا کی بھی حمایت حاصل تھی۔صدر کے چنا ؤکی طرح ہی نائب صدر کے چناؤ میں بھی کراس ووٹنگ ہوئی۔ممتا بینرجی نے اپنے 36/ایم پیز کو ووٹنگ سے دور رہنے کی بات کہی تھی لیکن ترنمول ایم پیز ششر ادھیکاری اور دویندو ادھیکاری نے ممتا کے فیصلے کے خلاف ووٹ کیا۔سپا اور شیوسینا کے دو جبکہ بسپا کے ایک ایم پی نے ووٹ نہیں کیا۔بھاجپا ایم پی سنی دیول اور سنجے دھوترے نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ بہرحال اب جب کہ جگدیپ دھنکڑ ملک کے دوسرے اعلیٰ عہدے کیلئے چن لئے گئے ہیں،یہ بھاجپا کی حکمت عملی کی کامیابی اور اپوزیشن کی پھوٹ کا نتیجہ ہے، جو بار بار منہ کی کھانے کے باوجود اپنی شکستوں سے سبق لینے کو تیار نہیں ہے۔مارگریٹ آلوا کی ہار میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ دونوں میں سے کسی ایک کو تو ہارنا ہی تھا لیکن اگر وہ جیت جاتیں تو یہ دنیا میں ایک انوکھا ریکارڈ ہوتا جب کسی ملک کے 2 / اعلیٰ عہدوں پر ایک ساتھ 2خواتین ہوتیں۔ایک جماعت سے دوسری جماعت میں جانے کے باوجود شری دھنکڑ کسانوں میں بیحد مقبول رہے ہیں اور وقت وقت پر اور کسان آندولن کے دوران بھی کسانوں کے حق میں آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ لہٰذا بھاجپا کو کسان حمایتی شری دھنکڑ کو نائب صدر بنانے کا کچھ فائدہ آنے والے چناؤ میں ضرور ملے گا۔موجودہ نائب صدر ایم وینکیا نائڈو کی مدت 10/اگست کو ختم ہوجائے گی اور نئے نائب صدر کی شکل میں شری جگدیپ دھنکھڑ 11/اگست کو حلف لیں گے۔