اب حماقت نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔ ازقلم : مدثراحمد
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بھارت میں بھی کورونا کے مرض کی وجہ سے ہر ایک انسان کی زندگی تشویش کا شکار ہوچکی ہے ۔ اب تک اس مرض کو مرض کی طرح دیکھا جارہا تھا لیکن پچھلے دو چار دنوں سے فرقہ پرستوں کے حلقے میں یہ سوچ تبدیل ہوچکی ہے ۔ اب ملک کا سنگھی طبقہ دوسری دہشت گرد حرکتوں میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کی الزامات کی طرح ہی کورونا بیماری کو بھی مذہب سے جوڑ رہاہے ، سوشیل میڈیا میں کئی ایسے نفرت آمیز اور اشتعال انگیز پیغام جاری کئے جارہے ہیں جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بھارت میں کورونا وائر س نہیں تھا لیکن مسلمانوں کی وجہ سے یہ مرض پھیلنے لگاہے اور مسلمان ہی اس مرض کے لئے سبب ہیں ، عمرہ کو جانے والے زائرین اس مہلک بیماری کو اپنے ساتھ لارہے ہیں جس کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے ۔ سرکاری سطح اور عام جانکاری رکھنے والے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں سب سے پہلا مرض کس ملک سے آیاتھا اور کون اسکے موجد ہیں ، البتہ سب سے پہلی موت جو کرناٹک کے گلبرگہ میں ہوئی وہ یقیناََ کورونا سے ہوئی تھی اور یہی پہلی موت ہے اور مرحوم عمرہ سے ہی لوٹے تھے مگر اسی بات کا بتنگڑ بناکر آج کچھ سیاسی اور فرقہ پرست سوچنے رکھنے والے لوگ مسلمانوں کا جینا حرام کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جس کا خمیازہ پوری قوم اٹھا رہی ہے ۔ بھارت میں کورونا وائرس سے بچائو کے لئے لاک ڈائون کو نافذ کیا گیا ہے اور لاک ڈائو ن کے معنی ہیں کہ بند ہوجا نا یا محصور رہنا ، اسی لاک ڈائون میں سوشیل ڈسٹنس بھی ایک حصہ ہے اس میں کسی بھی فرد کو ایک دوسرے کے ساتھ جسمانی قربت قائم کرنے سے گریز کرنا چاہئے اسے سوشیل ڈسٹنس بھی کہا جاتاہے ، کورونا چونکہ ایک دوسرے کو لگنے اور ایک دوسرے کے چھونے کی وجہ سے پھیلنے والی بیماری ہے اس لئے اس بیماری سے بچنے کے لئے احتیاط بے حد ضروری ہے ۔ ان نکات کو دیکھتے ہوئے پچھلے دنوں ملک کے مختلف تنظیمیں ، مسلکوں کے سربراہان اور مکتبہ فکر کی جانب سے مشترکہ طورپر اعلامیہ جاری کیا گیا ہے کہ کورونا مرض کی روک تھا م ہونے اور ملک میں لاک ڈائون کی میعاد ختم ہونے تک مساجد میں اجتماعی نشستوں اور جماعت سے نمازوں کی ادائیگی کے سلسلے میں روکا جائیگا ۔اس بات پر تمام علماء نے اکتفاء بھی کیا تھا مگر نتیجے کچھ اور ہی نکل رہے ہیں ۔ اعلامیہ جاری کرنے اور کسی بات پر اکتفاء ظاہر کرنا ایک طرح سے وعدہ ہے مگر یہاں مسجدوں میں جس طرح سے چوری چھپی اجتماعی نمازوں کی ادائیگی کی جارہی ہے وہ ایک طرح سے وعدہ خلافی ہی نہیں بلکہ چوری ہے ۔ چوری بھلے دنیا وی معاملے میں کی جائے یا دینی معاملے میںوہ چوری ، چوری ہی ہے اور فی الوقت مسجدوں میں جس طرح سے چھپ چھپ کر طئے شدہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نمازیں پڑھی جارہی ہیں وہ بھی خیانت ہے ۔ اگر صرف حکومت کی جانب سے اسطرح کا فیصلہ لیاجاتاتو ایک دفعہ عام مسلمان سوچ سکتے تھے لیکن یہاں باقاعدہ علماء و مفتیان کی جانب سے شرعی احکامات جاری کئے گئے ہیں باوجود اسکے علماء کے احکامات کو پامال کرنا کہاں تک مناسب ہے ۔ سوشیل میڈیا میں اس بات کے تبصرے کئے جارہے ہیں کہ پولیس مسلمانوں کو مسجدوں میں گھس کر پیٹھ رہی ہے اور یہ ظلم ہے ۔ اگر پولیس مسجدوں میں گھس کر مسلمانوں کو پیٹھ رہی ہے تو یہ یقیناََ ظلم ہی ہے لیکن مسلمانوں کو مسجدوں میں نہ جانے کے لئے علماء ، دارالافتاء ، حکومت ، ضلع انتظامیہ یہاں تک کہ پولیس کی جانب سے بھی گذارشیں کی جارہی ہیں تو کیونکر مسلمان اس سمت میں توجہ کرتے ہوئے قانون پر عمل نہیں کررہے ہیں ۔ حالانکہ کچھ مقامات پر مندروں میں پوجا کرنے والے معتقدین کو بھی پولیس نے لاٹھی کے درشن کرائی ہے ،لیکن بدنام زیادہ مسلمان ہورہے ہیں ۔ کئی اخباروں میں یہ سرخیاں دکھائی دے رہی ہیں کہ اب تک بھارت میں جو اموات کورونا سے ہوئی ہے ان میں زیادہ تر مسلمان ہی ہیں باوجود اسکے مسجدوں پر تالے کیوں نہیں لگائے گئے ہیں ؟۔ قانون کو پامال کرتے ہوئے ہم مسلمان نہ صرف اپنا نقصان اٹھارہے ہیں بلکہ اسلام اور مسجدوں کو بھی بدنام کررہے ہیں ۔ آج یہ مرض آہستہ آہستہ مذہبی رنگ اختیار کرنے جارہاہے ، کچھ فرقہ پرست باقاعد ہ یہ کہہ رہے ہیں کہ عرب ممالک سے آنے والے مسلمانوں کو ایر پورٹ سے چھوڑنا ہی نہیں چاہئے تھا بلکہ انہیں وہیں گولی ماردینی چاہیے تھی ، ایسے سب تبصرے سوشیل میڈیا ، اخبارات اور گلی کوچوں میں ہورہے ہیں انکا جواب دینے کے لئے ہم تیاری ہی نہیں کرپارہے ہیں کیونکہ مسلمان جواب دینے کے لئے گنجائش ہی نہیں دے رہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے مسلمان حماقتوں کو چھوڑ کر عقل سے کام لیں ۔ جتنے لوگ مسجدوں سے لاٹھی کی مار کھا کر آرہے ہیں ان میں سے کچھ تو پولیس کے سامنے ہاتھ اٹھا کر گڑ گڑارہے ہیں ، معافی مانگ رہے ہیں ، ایک مسجد کے امام کو تیزی کے ساتھ دوڑتے ہوئے دیکھا گیا ہے ، ایک مسجد میں موذ ن کو پیٹتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور جہاں جہاں اس طرح کی وارداتیں ہوئی ہیں وہاں پولیس کو کارروائی کو غلط اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں پر مسلمانوں کی غلطی ہے اور اگر پولیس ان معاملات میں لاٹھی اٹھاکر سبق سکھاکر چھوڑنے کاکام نہیں کرتی ہے اور مقدمے عائد کرتی ہے تو اسکا ڈبل نقصان ہوگا ۔ ایک تو عام لوگوں کو عدالتوں کے چکر کاٹنے ہونگے ، دوسرا مسجدوں کا نام عدالت تک پہنچے گا ، اگر کسی مسجد کے 50 مصلیوں پر مقدمہ عائد کیا جاتاہے تو ان 50 مصلیوں کی بات الگ ہے عدالت میں 50 بار مسجد کا نام لیا جائیگا ، کل کے دن اگر فرقہ پرست حکومت مساجد پر کارروائی کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو یہی مقدمے کافی ہیں ۔ ہمیں آج اور اب کی فکر کرنے کے ساتھ ساتھ کل کی فکر بھی کرنی ہے ۔ عیسائیوں اور سکھوںنے اپنی عبادت گاہیں بند کردی ہیں جبکہ مسلمانوں کو اب بھی اذان دینے کا موقع بھی دیا جا رہاہے جس سے مساجد کے ویران ہونے کے امکانات کم ہیں ۔ اگر حماقتوں سے مسجدوں کو سرکاری مہر لگادی جائے تو بعد میں افسر جب مسجد کا دروازہ کھولیں گے تب تک ہمیں انتظار کرنا پڑیگا ۔ اب بھی وقت ہے کہ مسلمان ہوش سے کام لیں نہ کہ جوش اور نوٹنکی سے ۔!!!