دوحہ قطر میں ’جدید ادبی تحریکات و نظریات پر ایک نظر‘توسیعی خطبہ کا انعقاد : ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی کا پرمغز خطاب
قطر :12؍نومبر (ایس او نیوز) جدید ادبی تحریکات و نظریات پر ایک نظر، اس عنوان کے تحت مؤرخہ 10 نومبر 2018م سنیچر کی شام حلقہء ادب اسلامی قطر نے ادارہ ادب اسلامی ہند کے صدر ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی صاحب کی ہندوستان سے آمد کی مناسبت سے استفادہ کرتے ہوئے ایک توسیعی خطبہ کا اہتمام کیا، ڈاکٹر صاحب حلقہ کے سالانہ نعتیہ اجلاس و مشاعرہ کی صدارت کے لئے قطر تشریف لائے تھے، جو 8 نومبر 2018م جمعرات کی شام منعقد ہوا تھا۔
توسیعی خطبہ سے استفادہ کے لئے دئے گئے موضوع کی اہمیت کے پیش نظر عام سامعین سے گریز کرتے ہوے حلقے نے دوحہ قطر میں موجود باذوق اردو نوازوں اور زبان دانوں کی ایک فہرست تیار کی، اور انہیں شرکت کی دعوت دی، جن میں تمام مکاتبِ فکر و نظر کے علماء، ہندوستان کے معروف درسگاہوں کے قدیم طلبہ اور علیگ کے صدور اور دیگر سنیئر شعراء و نثر نگار شریک ہوئے۔
الحمد للہ اجلاس میں حسب توقع ہر زمرہ سے معقول نمائندگی دیکھی گئی، اور اجلاس اس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوا، اجلاس کے شہ نشیں کی پشت پر مختلف رنگوں پر مشتمل ایک دلکش پردہ آویزاں تھا جس پر حلقہ کا نشان خاص، شاعرِ مشرق کا ایک معروف شعر ، عنوانِ خطبہ اور مہمان خطیب کا اسم گرامی جیسی اہم چیزیں درج تھیں، شہ نشیں پر ڈاکٹر شاہ رشاد صاحب مہمان خطیب کی حیثیت سے براجمان ہوے اور انجینئر سید محی الدین شاکر حیدرآباد، سر پرستِ حلقہء ادب اسلامی قطرصدارت کی کرسی کو زینت بخشی، اجلاس کی نظامت کے فرائض، دوحہ قطر کے معروف شاعراور نثر نگار محمد رفیق شاد ندوی عرف شاد آکولوی نے انجام دئے، جب کہ حافظ یاسر صدیقی کی تلاوتِ کلام پاک وترجمانی سے اجلاس کا بابرکت آغاز ہوا ۔
ڈاکٹر شاہ صاحب کا خطبہ تحریری تھا ساتھ ہی بوقتِ ضرورت نئے اصطلاحات یا تشریح طلب فقروں پر وہ اضافی گفتگوسے سامعین کی تشنگی کو مٹارہے تھے، آپ کا خطبہ تقریبا ایک گھنٹے پر مشتمل تھا مگر آپ کی گفتگو اتنی رواں، پر مغز اور دلچسپ تھی کہ سارے ہی سامعین خطیب کے ساتھ پوری طرح بندھے ہوے نظر آرہے تھے، وقت کی قلت کے باعث سوال و جواب کا مستقل دور نہیں رکھا جا سکا ، صدرِ اجلاس کے اختتامی کلمات کے ساتھ ہی اجلاس کے برخواست کا اعلان ہوا، جس کے بعد شرکاء کی معقول ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔شرکاء اجلاس کے تاثرات سے عنوان کی اہمیت کا اندازہ ہوا ، جب کہ عنوان پر وارد گفتگو کی ہر شخص نے بھر پور ستائش کی، بعض نے ڈاکٹر صاحب کی مکمل گفتگو کو کتابی شکل میں شائع کروانے کی اپیل کی۔ (موصولہ رپورٹ)