پمپری چنچوڑ میں رات کے وقت مسجد اور مدرسے کا انہدام
پونے، یکم اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی)ملک کے دیگر حصوں کی طرح پونے میں بھی ایک مسجد اور مدرسے کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دیا گیا۔ مقامی مسلمانوں نے اس قدم کے خلاف سخت احتجاج کیا، تاہم پولیس نے متعدد سرکردہ افراد کو حراست میں لے لیا، اور میونسپل کارپوریشن نے سخت سیکیورٹی کے دوران رات کے اندھیرے میں مسجد اور مدرسے کو منہدم کر دیا۔ اس واقعے سے مقامی مسلمانوں میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کرتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ سے سوال کیا کہ جب مسجد کے اردگرد موجود ہزاروں مکانات بھی غیر قانونی ہیں تو صرف مسجد کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟
اطلاع کے مطابق پونے ضلع کے پمپری چنچوڑ شہر سے قریب واقع کھیر گائوں کے کالی واڑی علاقے میں مسجد و مدرسہ جامعہ انعامیہ گزشتہ ۲۵؍ سال سے جاری و ساری تھا لیکن بعض ہندوتواوادی کارکنان نے اسکے خلاف انتظامیہ سے شکایت کی۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ مسجد ٹرسٹ کو نوٹس بھیجا گیا تھا لیکن نوٹس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اسکے بعد معاملہ عدالت میں گیا اور عدالت نے علاقے کی تمام غیر قانونی عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کا حکم دیا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مسجد کو عدالت کے حکم کی بنا پر مسمار کیا گیا ہے۔ اتوار کی دیر رات جب میونسپل کارپوریشن کا انہدامی دستہ ، پولیس کی سخت سیکوریٹی کے ساتھ مسجد کے خلاف کارروائی کیلئے پہنچا تو بڑی تعداد میں مقامی مسلمان اکٹھا ہو گئے ۔ انہوں نے اس کارروائی کے خلاف احتجاج کیا۔ پولیس نے مسلمانوں کے سرکردہ افراد کو گرفتار کر لیا اور بھیڑ کو منتشر کیا۔ اسکے بعد اس مسجد اور مدرسے کوشہید کر دیا گیا۔ اطلاع کے مطابق صبح ۵؍ بجے کے بعد گرفتار کئے گئے لوگوں کو چھوڑ دیا گیا۔ اس کارروائی کے بعد مقامی مسلمانوں میں سخت ناراضگی ہے کیونکہ یہ عمارت گزشتہ ۲۵؍ سال سے یہاں موجود تھی ،ہندوتوا وادی تنظیموں نے اسکے خلاف شکایت کرکے دانستہ طور پر یہ کارروائی کروائی ہے۔
مدرسہ و مسجد جامعہ انعامیہ کے ذمہ دار قاری اقبال عثمان جو اس وقت داپولی میں تھے نے نمائندوں کے استفسار کرنے پر بتایا کہ وہاں مسجد نما ایک ہال تھا جہاں نماز ادا کی جاتی تھی، اسے اتوار کی علی الصباح ۴؍ بجے بھاری پولیس بندوبست میں پوری طرح توڑ دیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ کارپوریشن کے انہدامی دستے کی آمد کا کسی کو پیشگی علم نہیں تھا۔ ویسے بھی چھٹی کا دن تھا اسلئے خیال بھی نہیں آیا کہ ایسا کچھ ہوسکتا ہے۔قاری عثمان کے مطابق انہدامی کارروائی کیلئے یہ جواز پیش کیا گیا ہے کہ یہ غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔جبکہ ۱ ۲۰۰ء میں یہ ہال بنایا گیا تھا۔ اس وقت چہار دیواری کے ساتھ ایک پترا رکھ دیا گیا تھا۔ بعد میں اسے آر سی سی کا بنادیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس تعلق سے شہری انتظامیہ نے۶؍ جون کو نوٹس دیا تھا جسکا مدرسہ کی جانب سے جواب دیا گیا تھا ۔ ا سکے باوجود اچانک یہ کارروائی کی گئی جو حیران کن ہے۔ ہم لوگ اس تعلق سے اجازت حاصل کرنے کیلئے منگل کو ( آج) مہانگر پالیکا جائیں گے۔