دہلی کی المناک صورتحال : حالات ہنوز کشیدہ ہیں، اموات کی صحیح تعداد چھپائی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔ دہلی سے سمیع اللّٰہ خان کی گراؤنڈ رپورٹ

Source: S.O. News Service | Published on 27th February 2020, 10:53 PM | اسپیشل رپورٹس |

آج 2 دن ہورہےہیں دہلی میں، یہاں پر بہت کچھ بدل گیا ہے، خاص طورپر نارتھ ایسٹ کے علاقوں میں پہلے جیسی بات نہیں رہی ہے، ڈر، خوف اور انجانی سی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

ہم لوگوں کی کوشش یہی ہےکہ خاص طورپر ٹارگٹ کیے گئے علاقوں، جعفرآباد، مصطفیٰ آباد اور چاند باغ تک پہنچیں اور وہاں سے براہ راست حقائق کو اکٹھا کریں لیکن پولیس پہروں اور پرمیشن کی بنا پر وہاں تک پہنچ نہیں پارہے ہیں امید ہیکہ پہنچ جائیں گے۔

نوئیڈا کے علاقوں سے ہوتے ہوئے ہم متاثرین کی خبرگیری کے لیے GTB ہاسپیٹل پہنچیں، وہاں پہنچنے کے بعد ایک گھنٹے کی مرحلہ وار کارروائیوں کے بعد ہمیں ہسپتال کے ایمرجینسی حصے اور مردہ خانے تک پہنچنے میں کامیابی ملی، پہنچنے کے بعد جو منظر میں نے نوٹ کیا وہ کچھ یوں ہے۔
  
یہاں کا منظر ایک بالکل ہی زندہ دل قسم کے انسان کو بھی سکتے میں ڈالنے کے لیے کافی ہے، یہاں پر مظلوموں کی خاص بات یہ ہیکہ ان کی آنکھیں خشک ہوچکی ہیں، ایک نوجوان عمر کے بچے سے میں نے پوچھا کہ کچھ بتا سکتے ہو، اس نے ٹکا سا جواب دیا " کچھ نہیں " آگے مردہ خانے کی طرف پہنچا۔

 یہاں صف ماتم بچھی ہوئی ہے، کسی کی لاش برآمد ہوتی ہے اندر سے، میڈیا والے جھپٹ پڑتے ہیں، ورثاء پیچھے رہ جاتےہیں میڈیا والوں کو خیال آتا ہے تو پیچھے مڑتے ہیں جس کےبعد کمر سے جھکی ہوئی ایک بوڑھی خاتون رندھی ہوئی آواز میں چلا کر کہتی ہیں " نہیں نہیں اس کو (لاش) بھی نوچ ڈالو " مرحلہ وار لاشیں باہر آتی رہیں اور یہی منظر دوبارہ ہوتا رہتاہے ۔

ہسپتال میں متاثرہ علاقوں کے خاصے افراد تھے میں نے مستقل پوچھ پوچھ کر متعلقہ مقامات کے بھائیوں سے بات چیت کی: 

بابا پور کے ایک شخص نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ 38 لوگوں کے مرنے کی خبریں بالکل جھوٹی ہیں، اس ہسپتال کی ہی تلاشی لے لو کتنی لاشیں باہر آتی ہیں خود دیکھ لینا۔

ایک متاثرہ خاندان سے بات کی، جوکہ اب صرف ایک بوڑھی خاتون اور نوجوان لڑکی پر مشتمل ہے۔ میں نے پوچھا ماں جی ہوا کیا تھا کچھ بتا سکتی ہیں؟ 

انہوں نے کہا: کچھ جانور گھس آئے تھے شیطان  ہمارے گھر والے پلنگ اور گدوں کے بیچ میں چھپ گئے تھے لیکن ان لوگوں نے ڈھونڈتے ہوئے گدوں پر چاقو مارا جو اندر چھپے ہوئے شخص کو لگ گیا جس سے وہ چیخنے لگا اس کے بعد وہ لوگ چاقو زور زور سے اندر تک گھوپنے لگے  نوجوان لڑکی سے میں نے پوچھا کہ کیا فسادیوں میں سے کسی کو پہچانتی ہو لڑکی نے کہا کہ بالکل نہيں، ہماری طرف کے تو لگتے بھی نہیں تھے۔

اشوک نگر کے اس خاندان سے ملاقات ہوئی جن کے یہاں مسجد پر بھگوا جھنڈا لہرایا گیا تھا ان لوگوں نے اس واقعے کی تصدیق بھی کی، بتایا کہ دو دن تک آر ایس ایس کا جھنڈا مسجد پر لگا ہوا تھا اور کہا کہ اب وہاں کے تقریباﹰ سارے ہی مسلمان نقل مکانی کرچکے ہیں، وہاں ہمارے گھروں کو جلا دیا گیا، اس خاندان کے نوجوان لڑکے سے مسلسل بات ہوئی، اس کی آنکھوں سے اشتعال مترشح تھا۔

 شام ہوتے ہوتے ایسے کئی افراد سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ نارتھ ایسٹ دہلی میں ابھی بھی حالات نارمل نہیں ہیں، فورسز دھمکیاں دیتی ہیں، جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں، آتش گیر مادوں خاص طور سے پٹرول بموں کے ذریعے وہ لوگ پھر سے موقع کی تاک میں ہیں۔

جمنا طرف کے ایک سنجیدہ شخص سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے بھی اموات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بھی کہا کہ ہرحال میں سو سے زائد اموات ہوئی ہیں، جب فورسز نے کرفیو لگایا تب نالوں تک میں لاشیں پڑی ہوئی تھیں پھر نجانے کہاں گئیں ۔

میں نے کہا کہ رویش کمار جیسے جرنلسٹ نے بھی کم ہی تعداد بتائی ہے، لیکن انہوں نے تعداد کے سلسلے میں رویش کمار سے بھی سخت اختلاف کیا اور کہا کہ نقصان اصلاً ہمارا ہوا ہے،اور رویش صاحب برابر سرابر دکھانے کی کوشش کررہےہیں، اور اگر کہیں بھی ہندؤوں کا نقصان شروعاتی دو دنوں میں ہوا ہے تو وہ بھی ہندو غنڈوں نے کروایا ہے وہ مسلمانوں پر حملے کرتےتھے ہماری دوکانیں جلاتے تھے جس کی لپیٹ میں غلطی سے ہندو بھی آجاتے تھے، اسي طرح ہندوﺅں کا نقصان ہواہے، شروعات میں لمبے سَمَے تک ہم لوگ تو سمجھ ہی نہیں پارہے تھے کہ یہ آفت کہاں سے آگئی اور ایسا کیوں ہورہاہے ہمارے لیے سب کچھ اچانک تھا ایسے میں ہم لوگ سب سے پہلے اپنی جان بچانا چاہتےتھے اُن لوگوں کا نقصان کیا کرتے۔
 
اشوک نگر کے نزدیکی علاقے کے دو افراد نے بتایاکہ ہمارے یہاں ہندؤوں کی آبادی معمولی تھی لیکن ہم نے رات رات بھر پہرے دے کر ان کے گھروں اور مندر کی حفاظت کی 

میں مسلسل اموات کے متعلق سوچتا جارہا تھا کیوں کہ یہاں ہر شخص یہی کہتا رہا کہ  اموات بہت زیادہ ہوئی ہیں، اور متاثرین یہ بات بہت سختی سے کہہ رہےہیں۔ 

یہ سوال میں نے کئی لوگوں سے کیا، اور ایک بوڑھے چچا سے بھی کیا انہوں نے کہا: " بابو فساد میں مرنے والے گنتی میں نہیں آتے بلکہ وہ لاپتہ کے خانے میں لکھے جاتےہیں " 
 بات میری سمجھ میں آگئی 

شام کے قریب ساتھیوں نے بتایاکہ سی کے سُبیر صاحب آئے ہوئے ہیں، ان سے ملاقات ہوئی، یہ کیرالہ کے مسلم لیڈروں میں سے ہیں۔

اس دوران اس وسیع و عریض ہسپتال میں گھومتا رہا، چاروں طرف سوگواری نظر آئی، مظلومین کا غصہ پولیس اور میڈیا پر پھوٹ پڑتاہے، وردی والے ہتھیارے اور گودی میڈیا واپس جاؤ کے نعرے لگنے لگتے ہیں، 
 تباہی، اور اجڑتے آشیانوں کا یہ منظر ماضی کی جیتی جاگتی تاریخ اور مستقبل کے لیے درد انگیز سبق ہے 

میں نے بارہا کوشش کی کہ یہاں لوگوں کی ڈھارس بندھاؤں، انہیں تسلی دلاؤں، کسی کی کچھ مدد ہی کردوں، لیکن قریب جا کر ہمت ہار جاتا تھا، ان لوگوں کے چہروں پر جو درد ہے وہ ڈراتا ہے، 

میں یہاں سے بالکل صاف طورپر یہ بات بتانا چاہتاہوں ان لوگوں کو جو بار بار یہ کہہ رہےہیں کہ لوگوں کو مقابلہ کرنا چاہیے، 

یہاں ایسا کچھ نہیں ہے، میں اپنی آنکھوں سے صاف صاف ایک کثیر آبادی کو ٹوٹا ہوا دیکھ رہا ہوں ، ایسے فزعِ اکبر سے گزرنے کے بعد زندگی برائے نام ہوجاتی ہے، چہ جائیکہ ان میں قوت مدافعت بچے  گھر کے گھر کیسے اجڑتے ہیں، پسماندگی اور ناخواندگی کیسے پھیلتی ہے، ہماری معاشی حالت کیسے مفلوک ہوتی ہے، نوجوانوں میں غصہ، گرمی، ردعمل کی نفسیات، جنون اور آخری درجے کی نفرتیں کیسے پروان چڑھی ہیں، اگر آنکھوں سے دیکھنا ہو تو GTB ہسپتال ہو آئیے۔

مغرب کے بعد میں ان لوگوں کے درمیان سے روانہ ہوگیا ہوں، ناقابل بیان کیفیت ہے، اسلیے صرف دیکھے اور سنے ہوئے کو آپ تک من و عن پہنچا رہا ہوں  دیگر مشاہدے آپ خود آکر کیجیے۔

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...