دہلی فساد اورعالمِ عربی:بولتے کیوں نہیں مرے حق میں؟۔۔۔۔۔ از: نایاب حسن

Source: S.O. News Service | Published on 7th March 2020, 11:12 PM | اسپیشل رپورٹس |

دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام پر اب تک جن مسلم ممالک کے ردِعمل سامنے آئے ہیں،ان میں انڈونیشیا،ترکی،پاکستان اور ایران شامل ہیں۔ملیشیا و ترکی نے سی اے اے پر بھی حکومتِ ہندکی تنقید کی تھی۔ایرانی وزیر خارجہ نے پیرکے دن ٹوئٹ کرکے دہلی فساد کو”مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد“قراردیااور ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کیاکہ مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے۔ان کے بعد ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے بھی لکھاکہ”ہندوستانی مسلمانوں کے قتلِ عام پر ساری دنیاکے مسلمانوں کے دل مغموم ہیں“۔انھوں نے تہدید آمیز اندازمیں لکھاکہ”اگر ہندوستان انتہاپسند ہندووں پر لگام نہیں لگاتا،تو عالمِ اسلام اسے الگ تھلگ کردے گا“۔ہندوستان نے ایران کے اس رویے پرناراضگی جتائی اور ایرانی سفیر سے احتجاج درج کروایاہے۔ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو کچھ ہورہاہے،وہ ہماراداخلی معاملہ ہے،باہر والوں کوبولنے کا حق نہیں ہے۔گرچہ دہلی فساد پر ایران کے اس سخت ردعمل کوبعض سیاسی تجزیہ نگار امریکہ و خلیجی ممالک سے ہندوستان کی قربت کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں،جن سے ایران کی رسہ کشی کی طویل تاریخ ہے۔آج کے روزنامہ انڈین ایکسپریس میں کے سی سنگھ نے اپنے مضمون میں لکھاہے کہ چوں کہ ہند-ایران مذہبی و ثقافتی تعلقات کی طویل تاریخ ہے؛اس لیے ایران کا ہندوستان کی موجودہ صورتِ حال پر بے چینی کا اظہار کرنابنتاہے،ساتھ ہی انھوں نے چین میں اویغورمسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایران کی خاموشی کی طرف بھی اشارہ کیاہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ چین چوں کہ خطے میں ایران کا ہمدردہے،شاید اس لیے ایران اس کے خلاف نہیں بولتا۔یہ بات ہم پاکستان کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہاں سے اویغور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف شاید ہی مذمت کا کوئی بول سننے کو ملتاہے۔بہرحال حقیقت جوبھی ہو،مگر یہ بڑی بات ہے کہ ایران نے کھل کر دہلی فساد پر اپنے ردعمل کا اظہار کیااورحکومتِ ہندکودفاعی پوزیشن میں ڈال دیاہے۔

بنگلہ دیش نے گرچہ17/مارچ کو ”مجیب صدی“تقریبات میں کلیدی خطبہ دینے کے لیے مودی کو دعوت دے رکھی ہے،مگر وہاں پہلے این آرسی/سی اے اے پر ہندوستان کے خلاف احتجاج ہورہاتھا،اب دہلی میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے خلاف زور دار احتجاج ہورہاہے۔کل بعد نماز جمعہ متعدد بنگلہ دیشی تنظیموں نے دارالحکومت ڈھاکہ میں احتجاجی مارچ نکال کر مودی کو بنگلہ دیش بلائے جانے کی مخالفت کی،انھوں نے اعلان کیاہے کہ اگرمودی بنگلہ دیش جاتے ہیں،تووہ لوگ انسانی زنجیر بناکر مودی کے خلاف ملک گیر احتجاج کریں گے،انھوں نے اپنی وزیر اعظم شیخ حسینہ سے مطالبہ کیاہے کہ مودی جیسے انسان کو،جس کی حکومت میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں،بنگلہ دیش کے بانی سے منسوب تقریبات میں خطاب کرنے کے لیے نہ بلایاجائے۔

اس پورے سیناریومیں عالمِ عربی کا موقف نہایت ہی شرمناک اور قابلِ افسوس ہے۔دہلی میں قتل و غارت گری کے خلاف پوری دنیا میں ہنگامہ ہورہاہے،عالمی میڈیا میں اس کی گونج اب تک سنائی دے رہی ہے،حتی کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اس پر بحث و نقاش ہورہاہے،مگر خلیجی و غیر خلیجی عربی ممالک کے حکمرانوں کو گویا موت آگئی ہے،ان کی زبانوں سے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک لفظِ تسلی سننے کونہیں ملا،چہ جائیکہ وہ ہندوستانی حکومت کے خلاف کوئی مضبوط قدم اٹھاتے۔کیااسلامی اخوت محض ایک ڈھکوسلہ ہے اوراس کا خارج میں کوئی وجودنہیں ہے؟ایک طرف ہندوستان کے مسلمان ہیں کہ یہ مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے ہر موضوع اور ہر معاملے میں عالمی اسلامی اخوت کے نعرے لگاتے اور خصوصا عربی ممالک کو غیر معمولی احترام تقدیس کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں،دوسری طرف یہ جبہ وعقال پوش قوم ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے دنیاکی سب سے بڑی مسلم آبادی سڑکوں پر ہے اور ہندوستان کی راجدھانی میں ان کی جان و املاک تباہ و برباد کردی گئیں،مگر اس پورے عرصے میں ان مردودوں سے ایک حرفِ مواسات سننے کونہیں ملا۔ حالاں کہ سعودی عرب سے لے کر متحدہ عرب امارات اور کویت و بحرین اور دیگر عرب ممالک جن سے ہندوستان کے گہرے تجارتی و اسٹریٹیجک تعلقات ہیں،وہ چاہیں تو مودی حکومت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں فرقہ وارانہ امن و امان قائم رکھے۔ایسے دباؤکااثر ہوتایانہیں ہوتاہے،اس سے قطعِ نظر عالمی ڈپلومیسی پراس کااثرضرور پڑتاہے۔جس طرح ایران یا ترکی اور انڈونیشیا وملیشیانے بیانات دیے، توان کے بیانات کے بعد کچھ ہوایانہیں ہوا،مگر ہندوستانی حکومت نے یقینی طورپر اپنے آپ کو دباؤ میں محسوس کیاہے اور یہی وجہ ہے کہ باربار یہ بولنے اور صفائی دینے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے اور ہمارے ملک کے لوگ محفوظ ہیں اوراسی دباؤ کی وجہ سے مودی حکومت کوعمیر الیاسی اور ایم جے اکبر کوجنیوا بھیج کرہیومن رائٹس کونسل میں صفائی دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

ایک نظر اس پر بھی

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...