”دہلی کا فساد بدلے کی کارروائی تھی۔ پولیس نے ہمیں کھلی چھوٹ دے رکھی تھی“۔فسادات میں شامل ایک ہندوتوا وادی نوجوان کے تاثرات
نئی دہلی،3؍اگست (ایس او نیوز) دہلی فسادات کے بعد پولیس کی طرف سے ایک طرف صرف مسلمانوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ سی اے اے مخالف احتجاج میں شامل مسلم نوجوانوں اور مسلم قیادت کے اہم ستونوں پر قانون کا شکنجہ کسا جارہا ہے، جس پر خود عدالت کی جانب سے منفی تبصرہ بھی سامنے آ چکا ہے۔ دوسری طرف ’کاروان‘ میگزین نے ایک اسپیشل رپورٹ شائع کی ہے جس میں فسادات میں حصہ لینے والے ہندونوجوانوں نے اسے اپنی طرف سے کی گئی منصوبہ بند کارروائی قرار دیا ہے۔
بدلے کی کارروائی:دہلی کے کاراوال نگر کے ایک 22سالہ نوجوان نے انٹرویو دیتے ہوئے اس فساد میں براہ راست ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ ”آپ اسے ایک خود حفاظتی قدم یا پھر بدلے کی کارروائی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن یہ دراصل بدلے کی ہی کارروائی تھی۔“
اس کا کہنا ہے کہ اس نے اورسنگھ پریوار سے وابستہ اس کے دیگر ساتھیوں نے مسلمانوں پر منصوبہ بند حملے کیے تھے کیونکہ وہاٹس ایپ پیغامات کے ذریعے انہیں اس پر اکسایاگیا تھا اور کہا گیا تھاکہ ”اگر اس وقت یہ کام نہیں کیا تو پھر کبھی بھی کچھ نہیں کرسکوگے۔اور ہم نے نشانہ بناکر مسلمانوں کی گاڑیوں اور جائداد کو توڑنے پھوڑنے کے علاوہ آگ زنی کے ذریعے برباد کردیا۔“
’جئے شری رام‘نہ کہنے پر جلاڈالا: اس نوجوان نے اپنی زبان سے اعتراف کیاکہ جن مسلمانوں نے ’جئے شری رام‘ کہنے سے انکار کیا ان کو بے جھجھک قتل کردیا گیا۔ ایسی ایک واردات کی تفصیل بتاتے ہوئے اس نے کہا:”میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سنگھ پریوار کے ایک گرو پ نے تین مسلمانوں کو گھیر کر قتل کردیا۔ان میں سے ایک شخص نے جب ’جئے شری رام‘ کہنے سے انکار کیا تو اس کو گھسیٹ کر ایک گاڑی میں ڈالنے کے بعد اس گاڑی کو آگ لگادی گئی جس میں وہ شخص جل کر ہلاک ہوگیا۔“
پولیس کی طرف سے کھلی چھوٹ: اس نوجوان نے بتایا کہ دہلی پولیس کے کچھ افسران نے سنگھ پریوار کے نوجوانوں کو مسلمانو ں پر حملے کرنے اور فساد پھیلانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ہم سے صاف کہا گیا تھا کہ:”مسلمانوں کے علاقے میں گھس کر حملہ کرو۔ ہم اس طرف نہیں آئیں گے۔ تم لوگ ہندو ہو، یہ بات اس وقت ثابت کرکے دکھاؤ۔ ہم تم لوگوں کو ایک چانس(موقع) دے رہے ہیں۔جب ہم کو اوپر سے ہدایات ملیں گی، تب ہم تمہیں روکنے کے لئے آئیں گے، تب تک جو بھی من میں آئے کرڈالو۔“
متحدہو کر حملہ کیا گیا: نوجوان کا کہنا تھا وہ ایک پانچ فٹ کے قریب لمبی چھڑی لے کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے نکلا تھا۔یہ دیکھ کر ایک دوسرے بجرنگی ساتھی نے اسے 6 فٹ لمبی لوہے کی سلاخ (راڈ) تھمادی، جس سے اس نے مسلمانوں کو مارنے اور قتل کرنے کی کارروائی انجام دی۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ تمام سیاسی اختلافات کو بھول کر مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو متحد ہونا ہے اور جم کر حملہ کرنا ہے۔
کپل مشرا کی تقریر: اس نوجوان نے بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا اور اس کی بھرپور ستائش کرتے ہوئے کہا:”مشرا نے بہت ہی اچھا کام کیا۔وہ لوگوں کواپنے ساتھ لے کر چلتے رہے۔اور بہت سار ی ہدایات بھی دے رہے تھے۔“ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ فسادات بھڑکانے میں کپل مشراکا بڑا ہاتھ ہے۔
کپل مشرا کی پولیس کودھمکی: خیال رہے کہ 23فروری کو جعفر آباد میں میٹرو ریلوے اسٹیشن کے قریب سابق ایم ایل اے کپل مشرانے مسلمانوں کے خلا ف سخت نفرت بھری اور اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔اس سے ذرا دوری پر شمالی مشرقی دہلی میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے پر امن احتجاجی دھرنا دیا جارہا تھا۔ کپل مشرا نے شمالی مشرقی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس وید پرکاش سوریا کی موجود گی میں ہی پولیس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا اگر مسلمانوں کا دھرنا ختم کرنے کی کارروائی پولیس کی طرف سے نہیں ہوگی تو لوگ خو د ہی آگے بڑھ کر یہ کارروائی کریں گے۔ اور حقیقت میں وہی ہوا کہ کپل مشرا کی تقریر کے چند گھنٹے بعد ہی شمال مشرقی دہلی میں مسلم مخالف فساد پھوٹ پڑا۔
فسادیوں کے پاس پستول بھی تھے: کاروان میگزین کوانٹرویودینے والے اس نوجوان نے بتایا کہ فساد میں ملوث سنگھ پریوار کے نوجوانوں کے پاس دوسرے ہتھیار کے علاوہ پستول بھی موجود تھے، مگر اس نے کسی کو گولیاں چلاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا تھا۔البتہ خود میں نے تقریباً سات یا آٹھ موٹر بائکس کو آگ کی نذر کر دیا تھا۔
خیال رہے کہ24اور26فروری کو شمالی مشرقی دہلی میں پھوٹ پڑنے والے اس فساد میں 53افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 23مسلمان شامل تھے۔
جومیں نے کیا وہ صحیح تھا: جب اس نوجوان سے پوچھا گیاکہ اس طرح کے فساد میں ملوث ہونے پر کیا اس کوکوئی پچھتاوا ہورہا ہے؟ تو اس نے کہا:”مجھے لگتا ہے کہ اس پس منظر میں جو کچھ بھی میں نے کیا وہ درست ہی تھا۔لیکن مجھے بعد میں پتہ چلا کہ جن لوگوں کو ہم نے نشانہ بنایاتھا وہ سب غریب افراد تھے۔کبھی کبھار اس بات پر پچھتاوا ہوتا ہے۔“
مسلمان شیرتھے، اب چوہا بن گئے ہیں: اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:”مگر جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا ہے۔دشمنی اور نفرت کی آندھی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ میں بھی بہہ گیا تھا۔لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن مسلمانوں کچلنے کے لئے یہ ضروری بھی ہوگیا تھا۔اس سے پہلے وہ شیر کی دھاڑتے تھے اب چوہوں کی طرح وہ خاموش بیٹھے ہیں۔اب اس کے بعد کبھی ہم پر حملہ کرنے کے بارے میں وہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔“