الحمدللہ! نفرت، دشمنی پھیلانے والوں کو عزت اور ذلت دینے والے نے رسوا کیا۔ ہمارے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچنے کی کوشش کرنے والوں کے لئے اُس سرزمین پر جہاں ان کا راج ہے انہیں اجنبی جیسا بناکر رکھ دیا۔ بے شک انسان چاہے لاکھ سازشیں اور کسی کو مٹانے کی کوششیں کرلے جب تک خالق کائنات نہیں چاہتا کچھ نہیں ہوسکتا۔ رسوائی اور ذلت کا یہ ایک ایسا سلسلہ ہے‘ جو شاید اُسی وقت ختم ہوگا جب وہ اپنے گھناؤنے مکروہ منصوبوں سے تائب ہوں گے۔
11/فروری2020کو دارالحکومت دہلی میں فرقہ پرستی، نفرت، مسلم دشمن طاقتوں کے ارمانوں، آرزوؤں اور اقتدار کے خوابوں پر اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی نے جھاڑو پھیر دی۔
یہ دن ہر اعتبار سے تاریخ ساز اور ہندوستانی عوام کے شعور کی بیداری کا دن رہا‘ دہلی کے عوام نے جس طرح سے فرقہ پرستوں کو ٹھوکر ماری ہے‘ اس کی بلبلاہٹ جانے کتنے چہروں پر دیکھی جائے گی۔ کتنے چیف منسٹر، کتنے ارکان پارلیمان، کتنے بکاؤ صحیفہ نگار ماتم کررہے ہیں۔ اور دہلی کے انتخابی نتائج پر پورا ہندوستان جشن منارہا ہے۔ یہ الیکشن صرف بی جے پی کی شکست نہیں تھی‘ بلکہ بی جے پی۔سنگھ پریوار کی فرقہ پرست سوچ، اس ملک کو ہندوراشٹر بنانے کی سازشوں اور کوششوں کی پہلی لیباریٹری تھی۔ شاہین باغ کو سبھی نے نشانہ بنایا۔ اور عوام نے مرکزی وزیر داخلہ کی اپیل پر اُلٹا ردعمل کیا کیوں کہ جو بٹن شاہین باغ میں دبایا گیا اس کے کرنٹ کے جھٹکے ایوان اقتدار کے ہر قائد کو محسوس ہوئے اور بہت جلد اُن دو ریاستوں (بنگال اور بہار) میں بھی اس کے اثرات دیکھے جائیں گے جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ دہلی والوں نے ہر اُس شخص کو عبرتناک شکست سے دوچارکردیا جس نے مذہب کی بنیاد پر انتشار اور نفرت پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ یوگی، امیت شاہ، نریندر مودی، انوراگ ٹھاکور جیسے قائدین کو جس طرح سے دہلی والوں نے نظر انداز کیا اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہندوستانی عوام چاہتے ہیں کہ ہندوستان‘ ہندوستان ہی رہے۔ جہاں کی گنگا جمنی تہذیب ہندومسلم، سکھ عیسائی کا اتحاد‘ بھائی چارہ مثالی ہے۔ جنہوں نے ہندوراشٹر بنانے کا خواب دیکھا تھا ان کے خواب چکناچور ہوگئے۔ عام آدمی پارٹی کی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جو پالیسیاں ہیں‘ اب ہندوستان کی تمام ریاستوں کے عوام ایسی پالیسیاں چاہتے ہیں۔ہندوستانی عوام کو ہندو مسلم نفرت، ہر بات میں پاکستان کے حوالے سے الرجی ہوچکی ہے۔ انتخابی نتائج ہیں‘ جو CAA، NRC، NPR کے خلاف ریفرنڈم بھی ہیں۔ اگرچہ کہ بی جے پی کے ارکان کی تعداد میں کچھ اضافہ ہوا ہے‘ مگر جتنی طاقت بی جے پی نے جھونکی تھی اس کے مقابلے میں یہ بہت کم ہے۔امید ہے کہ 11فروری 2020ء سے ہندوستان کی سیاسی تاریخ کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ بی جے پی قائدین اپنا محاسبہ کرینگے اور جو غلطیاں کی ہیں اُسے آئندہ نہیں دہرائیں گے۔
چلئے! کامیابی مل گئی۔ شاہین باغ کا وقار اس کی اہمیت مسلمہ ہوگئی۔ آج دشمن بھی یہ اعتراف کرنے کے لئے مجبور ہوگیا کہ دہلی الیکشن میں اگرچہ کہ کام والی پارٹی کو عوام نے بڑھ چڑھ کر ووٹ دیا‘ ایک ایسے شخص کو ایک بار پھر مسند اقتدار پر پہنچنے کا موقع دیا جو جملے باز نہیں‘ بلکہ عملی کام پر یقین کرتا ہے۔ جو اپنی ہر کوتاہی، غلطی اور ناکامی کے لئے کسی اور ملک کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتا۔ جس نے گذشتہ پانچ برس کے دوران اپنے بہت سارے انتخابی وعدوں کو پورا کیا اور اسے دوبارہ اقتدار کے لئے عوام کی تائید کیلئے انہیں مذہبی کٹرپسندی کا سہارا لینا نہیں پڑا۔ مسلمانوں سے دشمنی کے اظہار کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ سرجیکل اسٹرائیک، ٹرپل طلاق قانون، رام مندر کے کارڈس کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ کیوں کہ عام آدمی کے لئے بنائی گئی سیاسی جماعت نے عام آدمی کی عام ضروریات کی تکمیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تعلیم اور صحت دو ایسے شعبے ہیں‘ جو کارپوریٹ سیکٹر کے پاس ہیں‘ ایک عام آدمی کی آمدنی سے زیادہ رقم ان دو شعبوں میں خرچ ہوتی ہے‘ کجریوال نے سرکاری اسکولس، ہاسپٹلس، سڑکوں، بجلی، پانی کی سربراہی پر نہ صرف توجہ دی بلکہ انہیں اُس معیار تک پہنچا دیا کہ دہلی کے عوام کی اکثریت نے جنہوں نے پارلیمانی الیکشن میں این ڈی اے یا بی جے پی کے حق میں یکطرفہ فیصلہ کیا تھا‘ اسمبلی الیکشن میں اس طرح سے اس سے منہ موڑ لیا کہ 56 انچ کا سینہ سکڑ گیا اور کرنٹ لگانے والے کا فیوز ہی اڑگیا۔ دہلی والوں نے پورے ہندوستان کو راہ دکھائی کہ ایک سلجھے ہوئے تعلیم یافتہ قائد کو منتخب کرنے میں ہی سمجھداری ہے۔ اگرچہ کہ وہ اپنے اپنے مذہب پر پوری سختی کے ساتھ کاربند ہیں‘ مگر وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے مذہب کے نام پر دہشت گرد بنیں۔ نفرت کے سوداگروں کے آلہ کار بنیں۔
بہرحال دہلی الیکشن غالباً اپنی تاریخ کا سب سے زیادہ اہم ترین ثابت ہوا۔ اور اس میں سب کے لئے موضوع بحث ”شاہین باغ“ اور وہاں سیاہ قوانین کے خلاف احتجاج کررہی خواتین رہیں۔اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ پورے ملک میں جگہ جگہ شاہین باغ قائم ہوگئے۔ اور یہ سبھی جمہوری اقدار، سیکولر کردار، گنگاجمنی تہذیب مذہبی رواداری، بھائی چارہ کے مراکز بن گئے۔ سکھ برادری نے اپنی انسانیت‘ دوستی‘ کی ایسی مثالیں قائم کیں جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے لنگر قائم کئے۔ اور ان میں سے بعض کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جب لنگر چلانے کے واسطے پیسے ختم ہوگئے تو اپنا فلیٹ بیچ کر یہ سلسلہ جاری رکھا۔ ہندو بھائی بہنوں نے مسلم خواتین کے ساتھ خیر سگالی، جذبات اور یگانگت کا اظہار کیا۔ اپنے لباس کو بدلتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ دہشت گرد کپڑوں سے نہیں پہچانے جاتے ہیں۔ شاہین باغ میں جو بھی ہوا بہت اچھا ہوا مگر وہاں کی ہماری بہنوں اور بھائیوں سے انتہائی ادب کے ساتھ ایک گزارش ہے کہ وہ سیکولرزم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مظاہرے کے نام پر ان رسومات سے گریز کریں جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوسکتے ہیں۔ اگر شاہین باغ میں ہندو بھائی بہنیں ”ہون“ کا اہتمام کرتے ہیں‘ ضرور کرنے دیجئے۔ سکھ برادری ”گرنتھ“ صاحب کا پاٹھ پڑھتی ہیں تو یقینا اس کا خیر مقدم کیجئے۔ تمام مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں‘ ان کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ مگر خود اِن رسومات میں عملی طور پر شرکت شرعی قانون کے منافی ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم بھائی بہنیں آپ کے ساتھ نماز میں شامل ہوجاتے ہیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا مگر آپ ہون میں شامل ہوجائیں تو آپ دائرہ اسلام سے باہر ہوسکتے ہیں۔ مسلمان کی پہچان توحید‘ ایمان ہے۔ اس کی حفاظت کیلئے ہم ہر دور میں لڑتے رہے‘ مقابلہ کرتے رہے‘ قربانیاں دیتے رہے۔ ہمارے اسلاف کو اسی ایمان کی خاطر تپتی ہوئی ریت پر سینے پر پتھروں کے سل رکھ کر گھسیٹا گیا۔ نسل کشی کی گئی‘ دجلہ و فرات کے پانی کا رنگ سرخ ہوگیا۔ اسپین سے لے کر دہلی تک اِسی ایمان پر قائم رہنے کے لئے ہمارے بزرگ پھانسی پر چڑھ گئے۔ گردنیں کٹادی، جیلوں میں زندگی گذاردی۔ اور آج یہاں اس سرزمین پر اِسی ایمان اور مذہبی تشخص کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ رہنے کے لئے ہم جدوجہد کررہے ہیں۔ ہمارے دشمن تو چاہتے ہیں کہ یکساں سیول کوڈ کے نام پر ہم عام دھارے میں شامل ہوجائیں ہماری پہچان مٹادی جائے۔ جب ہم غیر شرعی رسومات انجام دینے لگیں تو پھر جھگڑا ہی کیا ہے‘ ہمارے دشمن بھی ہمیں ہاتھوں ہاتھ لے لیں گے۔ ہم نے شریعت میں مداخلت پر بہت قربانیاں دیں۔ کبھی ہمارے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ آج ایسا نہ ہو کہ شہریت کی خاطر ہم شریعت کے دامن کو چھوڑ دیں۔ اگر ایسا ہوا تو ہماری زندگیوں پر لعنت ہے‘ سیکولرزم اور مذہبی رواداری کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم غیر اسلامی شعائر اختیار کریں یا مذہب سے دور ہوجائیں۔ بلکہ سیکولرزم اور رواداری تو یہی ہے کہ آپ اپنے مذہب پر سختی سے عمل کرتے ہوئے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا بھی احترام اور لحاظ کریں۔ ہوسکتا ہے کہ بعض نام نہاد، مذہب بیزار دانشورمجھ سے اختلاف کریں۔
خدا راسنجیدگی سے میری بات پر غور کریں‘ بھائی چارہ، انشاء اللہ بنارہے گا بشرطیکہ ہم واقعی سچے مسلمان بن جائیں۔ شاہین باغ صرف دستوری حقوق اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لئے لڑی جانے والی جنگ کا میدان ہی نہیں بلکہ یہ اپنے دین کی دعوت، اپنے اخلاق اور کردار سے ہمارے دامن پر لگے داغوں کو دور کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، حیدرآباد سے شائع ہونے والے ہفت روزہ گواہ کے چیف ایڈیٹر ہیں)