تمام اقسام کے ہارٹ اٹیک کو فطری موت نہ سمجھیں،احتیاطی طور پر لاش کا ٹسٹ کروانے میں غفلت نہ برتیں
بنگلورو،18؍جولائی (ایس او نیوز) کورونا جان لیوا وائرس ہے یہ ہم سب جانتے ہیں لیکن اس سے بچنے کے لئے جو احتیاطی تدابیر اختیارکرنا چاہئے اس میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ غفلت برت رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس سب سے پہلے حلق میں داخل ہوتا ہے۔ جب تک یہ وائرس حلق میں رہے گا دیسی علاج کے ذریعہ اس وائرس کو حلق کے حصہ ہی میں ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس میں دیسی کاڑھا بہت کار آمد ثابت ہورہا ہے۔ اگر یہ وائرس حلق میں ختم نہیں ہوا تو دو دن بعد سیدھے پھیپھڑوں میں داخل ہوجائے گا تب بھی شرطیہ علاج سے وائرس کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس مرض کا علاج نا ممکن نہیں۔ عام طور پر دیکھاگیا ہے کہ اکثر لوگ ایسی حالت میں بھی نہ ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اورنہ اسپتال میں بھرتی ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پھیپھپڑوں کے ذریعہ آکسیجن پورے جسم میں پمپ ہوتی ہے۔ اگر یہ نظام بگڑ گیا تو آکسیجن انسانی جسم کے اہم حصہ دل کو پمپ نہیں ہوتا۔ نتیجہ ہارٹ اٹیک سے مریض فوت ہوسکتا ہے۔ اس طرح سے موت کو ہارٹ اٹیک کا نام دے کر دوست احباب، رشتہ دار عام موت سمجھ کر اکٹھا ہوجاتے ہیں اور عام طریقے سے غسل دے کر تدفین کررہے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم ہوتا کہ انجانے میں کورونا کی زد میں آرہے ہیں۔ ایسے ہارٹ اٹیک کے اموات میں شرکت کرنے والوں کو احتیاط برتنا چاہئے۔ ایسے اموات میں شرکت کرنے والا بالخصوص خواتین سماجی فاصلہ پر عمل نہیں کرتے، بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ تمام انفیکٹ ہوئے ہیں تب پچھتانے سے کیا فائدہ؟
ٹسٹ کروانا ضروری: اگر کسی مریض کو سانس لینے میں تکلیف ہے۔ پھیپھڑے متاثرہونے کے بعد ہارٹ اٹیک سے موت واقع ہوگئی ہے تو بالکل کورونا مریض ہی کی طرح اس سے دوری اختیارکرنی چاہئے اور بی بی ایم پی کو اطلاع دے کر تدفین سے قبل کورونا ٹسٹ ضرورکروانا چاہئے۔ اگر اس لاش کا ٹسٹ پازیٹیو نکلا تو کورونا سے متاثر لاش کی جس طرح آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں بالکل اسی طرح ادا کرنا چاہئے۔ اکثر یہ دیکھا جارہا ہے کہ اکثر مسلمان بزرگ جب ہارٹ اٹیک سے انتقال کرجاتے ہیں تو محبت اور جذبات میں لاش ٹسٹ نہیں کرواتے اس طرح خود بھی متاثر ہورہے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کو بھی متاثر کررہے ہیں ایسی حماقت کرنے والوں کو اپنے اہل خانہ اور اپنے معصوم بچوں پر ترس کھانا چاہئے۔ میت کا ٹسٹ کروانا آسان ہے۔ اس میں زیادہ اخراجات بھی نہیں لگیں گے۔ بی بی ایم پی کو اطلاع دینے سے عملہ خود جائے وقوع پہنچ کر ٹسٹ کرکے رپورٹ دے گا۔
بشکریہ : روز نامہ سا لار (خصوصی رپورٹ)