مینگلور: جنوبی کینرا میں بڑھتی غیر اخلاقی پولیس گیری ۔ امسال پیش آئے تشدد کے 12 معاملے۔۔۔ وارتا بھارتی کی خصوصی رپورٹ (ترجمہ : ڈاکٹر محمد حنیف شباب)
منگلورو، 30؍ ستمبر (ایس او نیوز) ضلع جنوبی کینرا میں مذہبی منافرت کی بنیاد پر چلائی جارہی غیر اخلاقی پولیس گیری کے معاملات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق امسال جنوری سے ستمبر تک کےعرصہ میں 12 ایسے معاملے سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں پولیس کے پاس باقاعدہ شکایت اور کیس درج ہوئے ہیں ۔ دیگر چھوٹے موٹے واقعات جو پولیس اسٹیشن تک نہیں پہنچے وہ اور بھی زیادہ ہوسکتے ہیں۔
سوشیل میڈیا پر طالبات کی ویڈیو : امسال غیراخلاقی پولیسنگ کا پہلا واقعہ 25 فروری کو پیش آیا تھا جس میں دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لڑکے اور لڑکیوں پر مشتمل 6 طلبہ کی ٹیم ایرمائی فالس پر پکنگ کے لئے گئی تھی۔ ان لوگوں پر پانچ شرپسندوں نے حملہ کیا تھا اور طالبات کے ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل کر دئے گئے تھے ۔ ویڈیو وائرل ہونے پر پتور کی ویمنس پولیس اسٹیشن میں از خود کیس درج کرلیا گیا ۔ اور اس معاملے میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا ۔ ابھی یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے ۔
اسپتال کے احاطہ میں ہراسانی : دوسرا معاملہ پتور میں پیش آیا جہاں ایک مذہب سے تعلق رکھنے والی لڑکی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے خاندان کے ساتھ اسپتال میں آئی ہوئی تھی۔ اسپتال کے احاطہ میں کچھ اجنبی لوگوں نے اسے روک کر دوسرے مذہب والوں کے ساتھ اسپتال آنے پر اعتراض اور سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ اس ہراسانی کے خلاف پتور ٹاون پولیس اسٹیشن میں مشتبہ افراد کے خلاف کیس درج کیا گیا ۔ اور انہیں سی آر پی سی کی دفعہ 41a کے تحت نوٹس جاری کی گئی ۔
راہ روک کر پوچھ تاچھ : غیر اخلاقی پولیس گیری کا تیسرا واقعہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے 6 پیرامیڈیکل طلبہ کے ساتھ پیش آیا تھا ۔ لڑکے اور لڑکیوں کی اس ٹیم کو کارنجیشور مندر کے احاطے میں کچھ اجنبی افراد روک لیتے ہیں اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں پونجالکٹے پولیس اسٹیشن میں معاملہ درج کیا گیا تھا ۔ جس کی تحقیقات جاری ہے ۔ جبکہ چوتھا اسی قسم کا معاملہ نیلیاڈی ندی کنارے پیش آیا تھا اور کڈبا پولیس اسٹیشن میں کیس درج ہوا ہے جس کی تحقیقات جاری ہے ۔ پانچواں واقعہ سوشیل میڈیا پر دوستی ہوجانے کے بعد اپنے دوست کے ساتھ ملاقات کے لئے رائچور سے پتور آنے والی لڑکی کے ساتھ پیش آیا تھا ۔ پتور ٹاون پولیس اسٹیشن میں کیس درج ہوا ہے اور دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔
کمرے میں گھس کر حملہ : جبکہ چھٹواں معاملہ پتور کی ایک لاڈج میں ٹھہری ہوئی جوڑی کے ساتھ پیش آیا جس میں اجنبی افراد نے کمرے کے اندر گھس کر مرد اور خاتون پر حملہ کیا تھا ۔ یہ معاملہ بھی پتور پولیس اسٹیشن میں درج کرنے کے بعد دو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ۔
آپسی صلح پر معاملہ ختم : ساتواں واقعہ توکٹو آئس کریم پارلر سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس پارلر میں کام کرنے والی لڑکی کو اپنی بائک پر بٹھا کر لے جاتے وقت اجوڈی کے پاس کچھ لوگوں نے روک کر مذہبی بنیاد پر حملہ کیا تھا ۔ کنکن ناڈی پولیس اسٹیشن میں معاملہ درج کر لینے کے بعد ملزموں کو گرفتار کرکے ضمانت پر رہا کیا گیا اور بعد میں آپسی صلح پر معاملہ ختم کیا گیا ۔
بس روک کر قاتلانہ حملہ : غیر اخلاقی پولیسنگ کا آٹھواں معاملہ بنگلورو جانے کے لئے بس میں سفر کررہی خاتون ساتھ پیش آیا جب دوسرے مذہب والے شخص کے ساتھ سفر پر اعتراض کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے بس روک کر ہنگامہ کھڑا کیا تھا ۔ اس میں مارپیٹ کے ساتھ قاتلانہ حملہ بھی کیا جاتا ہے جس کے تعلق سے کنکن ناڈی پولیس اسٹیشن میں کیس درج کیا گیا اور چار ملزمین کو گرفتار کیا گیا ۔ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے ۔
بس روک کر پوچھ تاچھ : اس سلسلے کا نوواں کیس وہ ہے جس میں مختلف مذاہب کے مرد اور خاتون ایک ساتھ منگلورو سے ممبئی کے لئے بس میں سفر کررہے تھے ۔ اس بس کو ہندوجاگرن ویدیکے والوں کی طرف سے موڈبیدری کے پاس روکا گیا اور دونوں مسافروں کو ہراساں کیا جانے لگا تو پولیس نے مداخلت کی تھی اور پوچھ تاچھ کے بعد ایچ جے وی کارکنان کو منتشر کیا تھا۔ اس کے بعد ان دونوں کو سفر جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔
پولیس کی مداخلت / نصیحت پر معاملہ ختم : اسی طرح دسویں معاملہ میں شادی میں شرکت کے لئے دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے دو ساتھیوں کے ساتھ منگلورو سے بنگلورو جانے والی خاتون کی بس کو بی سی روڈ پر سنگھی کارکنان کی طرف سے روک کر حملہ کیا گیا تھا ۔ بس میں موجود لوگوں نے پولیس کو اطلاع دی تھی اور پولیس نے خاتون اور اس کے دو ساتھیوں سے پوچھ تاچھ کے بعد انہیں سفر پر جانے کے لئے اجازت دی تھی۔ اس سلسلے میں کوئی کیس درج نہیں ہوا ۔
اسی قسم کا گیارھواں معاملہ کیرالہ کی لڑکی کے ساتھ منگلورو پمپ ویل کے پاس پیش آیا جب وہ کار میں دوسرے مذہب کے لڑکے ساتھ مڈیکیرے کی طرف سفر کررہی تھی ۔ کچھ لوگوں نے انہیں روک کر ہراساں کیا ، پھر کنکن ناڈی پولیس کو خبر دی گئی ۔ پولس نے انہیں اسٹیشن لے جا کر نصیحت کرنے کے بعد معاملہ ختم کرکے گھر جانے کے لئے چھوڑ دیا ۔
پولیس اسٹیشن میں ہی ضمانت: غیر اخلاقی پولیس گیری کا بارھواں اور حالیہ واقعہ سورتکل ٹول گیٹ پر پیش آیا جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے میڈیکل کالج کی لڑکے اور لڑکیاں جب پکنک سے واپس لوٹ رہے تھے تو انہیں روک کر ہنگامہ کھڑا کرنے کے علاوہ پولیس افسر کی موجودگی میں ہی طلبہ کے ساتھ مارپیٹ کی گئی ۔ حالانکہ پولیس نے کیس تو درج کر لیا، مگر قابل ضمانت دفعات لگا کر ملزمین کو پولیس اسٹیشن میں ہی رہا کردیا گیا۔ جس پر عوامی سطح پر ناراضی اور بے اطمینانی کا اظہار کیا گیا ۔
معاملہ کی مناسبت سے دفعات لگتی ہیں: اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے جنوبی کینرا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس رشی کیش سوناونے نے کہا کہ " ہمارے دائرہ عمل میں ایسا کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے تو ہم معاملہ درج کر لیتے ہیں ۔ گزشتہ چھ مہینوں میں غیر اخلاقی پولیسنگ سے متعلق 6 معاملے سامنے آئے ہیں اور ان میں سے کڈبا اور پتور معاملہ میں پولیس نے ازخود کیس درج کیے تھے ۔ معاملہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہم ملزموں پر قانونی دفعات لگاتے ہیں ۔"
غیر اخلاقی پولیسنگ غنڈہ گردی ہے : مشہور وکیل دنیش ہیگڈے کا کہنا ہے کہ سورتکل میں طلبہ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ غنڈہ گردی ہے ۔ پولیس نے معمولی قسم کی دفعات کے تحت کیس درج کیا ۔ حالانکہ یہ عوام میں خوف و ہراس کرنے والی واردات تھی ۔ جب کبھی ایسے واقعات پیش آئیں تو غنڈہ ایکٹ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے ۔ ورنہ دیگر اضلاع اور ریاستوں سے تعلیم، ملازمت اور کاروبار کے لئے یہاں آنے والوں کو خوف و ہراس کے ماحول میں جینا ہوگا ۔
پولیس سیاسی دباو میں آتی ہے : سابق وزیر اور موجودہ ایم ایل اے یوٹی قادر کا کہنا ہے کہ پولیس سیاسی دباو میں آ کر غنڈوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جاتی ہے ۔ اب آئی ٹی شعبہ کی بڑی کمپنیاں اس ضلع کا رخ نہیں کررہی ہیں ۔ جو کمپنیاں موجود ہیں وہ بھی اپنے قدم پیچھے ہٹا رہی رہیں ۔ اب تک یہاں پر ملک اور بیرون ملک سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے آرہے تھے ۔ مگر اس وقت پیشہ ورانہ کورسس میں طلبہ کے داخلے کم ہوتے جارہے ہیں ۔ اگر اسی طرح سڑک چھاپ غنڈہ گردی ہوتی رہی تو پھر والدین اپنے بچوں کو تعلیم پانے کے لئے یہاں کیوں بھیجیں گے ؟
غیر اخلاقی پولیسنگ سیاسی پروگرام ہے : ڈی وائی ایف آئی کے ریاستی صدر منیر کاٹیپلی کہتے ہیں کہ غیر اخلاقی پولیسنگ ضلع جنوبی کینرا کے لئے نئی بات نہیں ہے ۔ حالیہ دنوں میں یہ سیاسی پروگرام کا حصہ بن گئی ہے ۔ یہاں پیش آنے والے واقعات اب ریاست کے دوسرے مقامات پر بھی دہرائے جارہے ہیں ۔ غیر اخلاقی پولیسنگ یا مذہبی غنڈہ گردی کی حمایت کرنے یا پھر اسی کے سہارے اقتدار پانے والی بی جے پی کے دور میں ان واقعات پر تعجب کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔
کیا کہتے ہیں بی جے پی ترجمان : بی جے پی جنوبی کینرا کے ترجمان سنجئے پربھو کا کہنا ہے کہ ہمارے فرقہ کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو دوسرے فرقہ کے لوگوں سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں سنگھ پریوار کے نوجوان اگر پولیس کے پاس شکایت کرتے ہیں تو اس میں تاخیر ہوجاتی ہے ، اس خدشہ کی وجہ سے کبھی کبھار خود ہی کارروائی کرتے ہیں ۔ اس تعلق سے ہمارے اپنے لوگوں کو ہی بیدار ہونا پڑے گا ۔ ہم ایسی کارروائی کی حمایت تو نہیں کرتے ، لیکن ایسے واقعات کیوں ہوتے ہیں اس پر غور کرنا اور سمجھنا ضروری ہے ۔
میں نے بارہا مخالفت کی ہے : سابق کارپوریٹر پرتیبھا کولائی کہتی ہیں کہ میں نے ایسے واقعات کے خلاف بارہا آواز اٹھائی ہے ۔ اس وقت میرے خلاف بد زبانی کرتے ہوئے الزام تراشیاں کی گئی تھیں ۔ جنوبی کینرا تعلیم کے لئے معروف ضلع ہے ۔ مختلف ریاستوں سے والدین اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں بھیجتے ہیں ۔ لیکن ہمارے اندر موجود تعلیمی اقدار سے بیگانہ کچھ نوجوانوں کے رویہ کی وجہ سے آج یہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے ۔
کیا ہے عوامی نقطہ نظر: عوام کا کہنا ہے کہ اس طرح کی غیر اخلاقی پولیس گیری اور مذہبی منافرت کے چلتے یہاں بین الریاستی اور بین الاقوامی سطح پر سیاحت اور سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے ۔ جان و مال کے غیر محفوظ ہونے کا احساس ضلع جنوبی کینرا کی ترقی کے لئے بڑا خسارہ ثابت ہورہا ہے ۔
عوام کا الزام ہے کہ اس قسم کے واقعات پیش آنے پر پولیس کی طرف سے کٹھن کارروائی نہ کرنا یا سیاسی دباو کی وجہ سے معاملہ کو رفع دفع کرنا ہی اس مسئلہ کو اور سنگین بنا رہا ہے ۔ اس سے ملزمین کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور وہ لوگ بار بار اس قسم کی کارروائیاں انجام دیتے ہیں ۔