منگلورومیں حالات ہنوز کشیدہ، کرفیومیں 22/دسمبر تک توسیع، تشدد میں 100سے زائد زخمی ؛ پولیس کی غیر منصفانہ کارروائی پر مسلمانوں میں سخت ناراضگی
منگلورو،21/ دسمبر (ایس او نیوز) شہریت قانون کے خلاف جمعرات کو احتجاج کے دوران ریاست کے ساحلی شہر منگلورو میں حالت میں بگاڑ اور پولیس فائرنگ میں دو مسلم نوجوانوں کے جاں بحق ہونے کے واقعے کے بعد شہر میں لگائے گئے کرفیو میں 22/دسمبر تک کی توسیع کردی گئی ہے۔ شہر بھر میں پولیس فورس کی بھاری تعیناتی کے درمیان مسلمانوں کو نماز جمعہ ادا کرنے کی چھوٹ دی گئی۔
منگلورو کے پولیس کمشنر ڈاکٹر بی ایس ہرشا نے جمعہ کے روزہ ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ ساحلی شہر میں حالات زیر قابو ہیں اور رات سے کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ انہوں نے بتایا کل ہوئے پرتشدد واقعات میں دو نوجوانوں کی موت ہوگئی جبکہ تقریباً100/افراد زخمی ہوئے جن میں 33/پولیس جوان شامل ہیں۔ ان میں سے سات کو زیادہ چوٹیں آئی ہیں۔ اس دوران منگلورو کے ان علاقوں کا جہاں پر جمعرات کو پرتشدد واقعات رونما ہوئے تھے ان کا دورہ کرنے سے کانگریس رہنماؤں کے ایک وفد کو روک دیا گیا۔ منگلورو ایر پورٹ پر ہی ان رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ریاستی اسمبلی کے سابق اسپیکر رمیش کمار، رکن کونسل نصیر احمد، سابق وزیرایم بی پاٹل، سابق رکن پارلیمان وی ایس اگرپا وغیرہ شامل تھے۔ یہ وفد فائرنگ میں مارے گئے افراد کے خاندانوں سے ملاقات کرنا چاہتا تھا۔ اس موقع پر وی ای اگرپا نے کہا کہ ریاستی حکومت عوام نمائندوں کو متاثرین سے ملاقات کرنے سے روک کر اس بات کا ثبوت دے رہی ہے کہ وہ سچائی کا گلا گھونٹانا چاہتی ہے۔
نماز جمعہ کے بعد منگلورو کی مسجد احسان میں منگلورو شہر کی مختلف اہم مسلم تنظیموں کے ذمہ داروں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے منگلورو پولیس پر راست الزام عائد کیا ہے کہ جمعرات کے دن امتناعی احکامات کے درمیان پولیس نے منصوبہ بند طریقہ سے غیر ضروری طور پر پولیس فائرنگ کر کے دو بے گناہ افراد کی جان لی۔ ہے۔ مسلم لائٹری فور م کے صدر عمر یو ایچ نے کہا ہے کہ جمعرات کے دن منگلورو میں چند مسلم نوجوان پر امن احتجاجی مظاہرہ کرنے آرہے تھے تو پولیس نے ان پر اچانک لاٹھی چارج کیا اور پھر آنسو گیس کے گولے داغ کر انہیں مشتعل کردیا تھا اور اس دوران پولیس نے فائرنگ بھی کی اور فائرنگ میں دو نوجوان شہید ہوئے، جبکہ وہاں حالات اتنے سنگین نہیں تھے کہ پولیس کو لاٹھی چارج یا فائرنگ کی نوبت پیش آتی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ فائرنگ منصوبہ بند طریقہ سے کی گئی تھی۔
پی ایف آئی لیڈر و وکیل اشرف کے انگڈی نے کہا کہ قانون کے مطابق امتناعی احکامات دفعہ 144کے تحت نافذ کرنے کے بعد بھی جب حالات قابو میں نہ آنے جیسی صورتحال پیدا ہوتو اس وقت فائرنگ کرنے سے پہلے وارننگ دینی پڑتی ہے اور ہجوم کو منتشر کرنے قدم اٹھانا ہے۔ اس کے باوجود اگر ہجوم منتشر نہ ہوتو ایسی صورت میں کسی پر گولی چلانی بھی ہے تو اس کے پیروں پر گولی چلانی ہوتی ہے۔ لیکن منگلورو میں پولیس نے ان سارے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ جس وقت یہ ہنگامہ ہو اس سے تھوڑی دیر قبل اسکول کالج کی چھٹی ہوئی تھی اور بس اسٹیشن پر اسکول کالج کے طلباء بس کے انتظار میں تھے ایسے وقت پر جو غیر ضروری فائرنگ کی گئی، اس کے نتیجہ میں 2/ افراد کی موت ہوئی۔ سابق مئیر اشرف اور دیگر 6/ افراد گولی لگنے سے زخمی ہوئے لاٹھی چارج کے دوران 38/افراد زخمی ہوئے ہیں یہ سارے افراد پرائیویٹ اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ منگلورو کے پولیس کمشنر نے پولیس ہیڈکوارٹر کو گمراہ کن رپورٹس دی ہے کہ پولیس پر حملہ کرنے کی ہجوم نے کوشش کی تو انہوں نے فائرنگ کے آر ڈرس جاری کئے تھے۔ پریس کانفرنس کے دوران ہدایا فاؤنڈیشن کے خالد احم، عفان ناظم، بی ایس امتیاز اور دیگر چند انجمنوں کے ذمہ دار موجود تھے۔