کووِڈ کے علاج میں ایک نئی پیش رفت۔ کینسر اسپتال کے ڈاکٹروں نے تلاش کیا ایک نیا طریقہ۔ تجرباتی مرحلے پر ہورہا ہے کام!
بنگلورو،23؍مئی (ایس او نیوز) سر اور گلے کے کینسر اورروبوٹک سرجری کے ماہر ڈاکٹر وشال راؤ کا کہنا ہے کہ ایچ سی جی کینسر اسپتال میں کووِڈ 19کے علاج کے لئے ڈاکٹروں نے ایک نئے طریقے پر کام کرنا شروع کیا ہے جس میں خون کے اندر موجود سائٹوکینس نامی ہارمون کا استعمال کیا جائے گا۔اس بات کی رپورٹ معروف انگریزی روزنامہ بنگلورمِرر نے شائع کی ہے۔
اخبار نے ڈاکٹر وشال کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابھی اس طریقہ علاج کی توثیق نہیں کی گئی ہے مگر اس پر تجرباتی مرحلے میں کام ہورہا ہے اور 25؍مئی سے انسانوں پر اس کا تجربہ شروع کیا جائے گا۔اسپتال کے ڈاکٹروں کو امید ہے کہ کووِڈ کے مریض کے جسم میں سائٹو کینس داخل کرنے پر وہ خون کے اندر قوت مدافعت بڑھانے کا کام انجام دیں گے۔ کیونکہ قدرتی طورپر ہمارے جسم میں گلے کے اندر ایک گلٹی(گلانڈ) ہوتی ہے جسے تھائمس کہتے ہیں اور اس کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ جب جسم کو بیرونی جرثومے یا وائرس سے خطرہ ہوتا ہے تو وہ سائٹوکن نامی ہارمون خارج کرکے جسم کے مدافعتی عمل کو لڑنے کے لئے تیار ہونے کا پیغام دیتی ہے۔
تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کے اندر کووِڈ کا حملہ ہونے کے بعد یہ گلٹی اپنا کام تیزی سے کرتی ہے اور ابتدائی مرحلے میں انفیکشن سے جنگ کرکے جسم کو صحت مندر رکھنے کی ذمہ داری اداکرتی ہے۔ لیکن 65سال سے زائد عمر کے لوگوں میں یہ گلٹی چونکہ قدرتی طور پر بوسیدہ اور کمزور ہوچکی ہوتی ہے اس لئے یہ اس تیزی کے ساتھ کام نہیں کرپاتی جس کی وجہ سے عمر رسیدہ افراد میں کووِڈ کا اثر بہت ہی سنگین ہوجاتا ہے اور قوت مدافعت اس حالت میں نہیں رہتی ہے کہ وہ بیرونی حملے کا مقابلہ کرسکے۔
اب جس نئے طریقے پر کام ہورہا ہے اس کے مطابق ایک صحت مند انسان کے جسم سے 2ملی میٹر کے قریب خون لے کر اس میں سے تھائمس سیلس کو الگ کیا جائے گاپھر ان سیلس پر وائرس کا حملہ مصنوعی طریقے سے کیا جائے گا۔ جس کے بعد یہ سیلس قوت مدافعت بڑھا نے کا سگنل دینے والا ہارمون سائٹو کینس تیار کریں گے۔ پھر اس ہارمون کو کووِڈ کا حملہ ہوتے ہی ابتدائی مرحلے میں اگر مریض کے جسم میں انجکشن کے ذریعے داخل کیا جائے گا تو وہ مریض کے اندر موجود ہلکی علامات کو فوری طور پر ختم کرنے اور وائرس کے اثر کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے ایک مدافعتی فوج تیار کروانے کا کام کرے گا۔یعنی مریض کے جسم کو ایک ’خصوصی طاقت‘ مل جائے گی اور ابتدائی مرحلے میں یہ علاج بہت ہی کامیاب ثابت ہوگا۔
ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم رضاکارانہ طور پر آگے آنے والے چند افراد پر اس کا تجربہ کررہی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ جو طریقہ ہے وہ ’ویکسین‘ اور ’پلازما تھیراپی‘ سے بالکل جداگانہ ہے۔ان ڈاکٹروں نے یہ بھی واضح کیا کہ جن مریضوں کی حالت بہت ہی بگڑ گئی اور سنگین مرحلے میں ہوں تو پھر ان کے لئے ’اسٹیم سیل تھیراپی‘ ہی واحد طریقہ علاج ہوسکتا ہے، جسے چین میں کامیابی کے ساتھ آزمایا جاچکا ہے۔