حکومت اپنی ناکامی چھپانے کیلئے کس کس چیز کاسہارا لیتی ہے۔ اس کا ثبوت نظام الدین کا تبلیغی مرکز ہے۔ دودنوں میں جس طرح حکومت اور میڈیا نے جھوٹی اور من گھڑت خبریں پھیلائیں اس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں بھی حکومت اور میڈیا کس قدرقعرمذلت میں ہے۔
پوری دنیا اس مصیبت سے لڑنے میں مصروف ہے اور ہندوستانی میڈیا اور حکومت مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے میں مصروف ہے۔جموں کے ویشنو دیوی مندر میں چار سو لوگ میڈیا اور حکومت کو پھنسے ہوئے نظر آتے ہیں جب کہ حضرت نظام الدین اور دیگر مساجد میں پناہ گزیں لوگ چھپے ہوئے نظر آتے ہیں۔
کورونا کے دوران مدھیہ پردیش اراکین اسمبلی کی خریدو فروخت کرکے حکومت کی تشکیل دی جاتی ہے، حلف لیا جاتا ہے، جشن منایا جاتا ہے، لیکن حکومت اور میڈیا کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی نہیں نظر آتی۔
نوئیڈا میں ہی ایک کمپنی کے 31ملازم کورونا پازیٹیو پائے جاتے ہیں اس سے کسی کو خطرہ نہیں ہوتا لیکن نظام الدین میں 24 پوزیٹیو پائے جانے کو پورے ہندوستان کے لئے خطرہ بتایا جاتا ہے اور حکومت ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں کو جانوروں کی طرح ٹھونس لے جایا جاتا ہے اس سے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی اور سوشیل ڈسٹینس کی خلاف ورزی نظر نہیں آتی۔حضرت نظام الدین میں تبلیغی مرکز کے متعلق متضاد خبریں آرہی ہیں۔
دراصل اس کا مقصد اسے بدنام کرنا ہے۔ہندی اور ہندوتوا میڈیا کو جس میں ٹی وی چینل اور اخبارات شامل ہیں،کو ایک سنہرا موقع مل گیا ہے کہ اس بہانے وہ مسلمانوں اور مرکز کو بدنام کریں۔ بغیر سوچے سمجھے اور حقیقت جانے اس میں مسلمانوں کاکچھ طبقہ بھی شامل ہوگیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے سبب دہلی اور مرکزی حکومت کی ناکامی کی وجہ سے اس کی جگ ہنسائی ہورہی تھی، دہلی سمیت پورے ملک میں غریب سڑکوں پر تھے، سارے لوگ پریشان حال ہیں اسی دوران مرکز کا معاملہ سامنے آگیا ہے۔
حکومت اور میڈیا نے بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ تمام ناکامی کو چھپانے کے لئے اس کا رخ مرکز کی طرف موڑ دیا۔ حکومت ایسا ظاہر کررہی ہے کہ سب کچھ پوشیدہ طور پر رہ رہے تھے، جب کہ تمام چیزیں پولیس کے علم تھیں۔
پولیس نے مرکز والوں سے سوشیل ڈسٹینس بناکر رہنے کو کہا تھا۔ ان میں سے 300بعض رپورٹ میں صرف 100 غیر ملکی باشندے ہیں جو مختلف ممالک کے ہیں۔ یہ 6منزلہ عمارت ہے ظاہر سی بات ہے کہ سب ایک ساتھ نہیں ہوں گے۔ 300 لوگ جو غیر ملکی تھے واپس بھیجا گیا تھا جو ہوائی جہاز بند ہونے کی وجہ سے پھر واپس آگئے۔لاک ڈاؤن اچانک کردیا گیا ان لوگوں کو یہاں سے نکلنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ لوگ اپنے ایمبیسی کے رابطے میں تھے۔ کچھ ایمبیسی میں بھی ہیں۔ مجبوراً انہیں یہیں قیام کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ باقی ماندہ بیرون دہلی کے تھے اور لاک ڈاؤن کی وجہ کہیں سفر نہیں کرسکتے تھے۔
اسی طرح ملک بھر میں جماعتیں گئی ہوئی تھیں جو مختلف مسجدوں میں قیام پذیر تھیں چھپی ہوئی نہیں تھیں۔ یہ کہنا کہ لاک ڈاؤن کے بعد بھی وہ باہر نہیں نکلے، وہ باہر نکل کر کہاں جاتے،لاک ڈاؤن کی وجہ سے آمد و رفت کے تمام ذرائع بند تھے۔یہ ساری باتیں پولیس کے علم تھیں۔ اس کے باوجود اسے بدنام کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ جن لوگوں کو لے جایا گیا ہے ان کی پوری رپورٹ ابھی نہیں آئی ہے اس لئے اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن میڈیا کے ایک بڑے طبقہ نے کورونا کا مرکز کہنا شروع کردیا ہے۔جب کہ معلوم ہونا چاہئے کہ جو غیر ملکی آتے ہیں اس کا علم وزارت داخلہ اور خارجہ کو ہوتا ہے۔
یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ ان لوگوں کو بھیجنے کا انتظام کرتی، جسے اس نے پوری نہیں کی، مرکز والے انتظامیہ کے بھی رابطے میں تھے۔لاک ڈاؤن کے سبب وہ مرکز میں رہنے کو مجبور تھے۔ جو لوگ انہیں عقل سے پیدل قرار دے رہے ہیں کیا وہ یا ان کی جماعت ان لوگوں کو اپنے کیمپس یا گھروں میں پناہ دیتی۔کیا وہ لوگ مزدوروں کی سڑکوں پر پولیس کی لاٹھیاں کھاتے، ذلیل ہوتے۔ مسائل کو سمجھے بغیر تنقید کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
مولانا یوسف نے 25مارچ کو اپنے دستخط والے مکتوب خط میں ایس ایچ او نظام الدین کو لکھا ”ہم مرکز کو خالی کرنے کے لئے آپ کی ہدایات پر عمل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ 23 مارچ کو، ہم پہلے ہی 1500 سے زیادہ لوگوں سے خالی کر چکے ہیں۔ہمارے پاس اب بھی مرکز میں مختلف ریاستوں کے 1000 سے زیادہ لوگ ہیں۔ آپ کی ہدایات کے مطابق، ہم نے گاڑی کے پاس کے لئے ایس ڈی ایم سے رابطہ کیا تاکہ ہم باقی لوگوں کو ان کے متعلقہ مقامات پر بھیج سکیں۔ ایس ڈی ایم دفتر نے 25 مارچ کو صبح 11 بجے ملاقات کے لئے وقت ہے۔
آپ سے درخواست ہے کہ برائے کرم جلد کارروائی کے لئے ایس ڈی ایم سے رابطہ کریں. ہم آپ کی تمام ہدایات پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں۔“اسی طرح 29مارچ کو اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس اتل کمار کو مکتوب میں تبلیغی مرکز کا تعارف کراتے ہوئے اور لوگوں (تبلیغی کارکنوں) کی آمد و رفت کے بارے میں بتاتے ہوئے وضاحت کی کہ”جب لاک ڈاؤن ہوا تھا تو کافی لوگ اندر تھے اور وہ اندر ہی رہے۔