اسمبلی انتخابات 2021: مغربی بنگال ، آسام، کیرالہ ، تمل ناڈو اور پڈوچیری میں ووٹوں کی گنتی جاری ، آسام کو چھوڑ کر دیگر تمام ریاستوں میں پھول مرجھانے کے قریب
مغربی بنگال، تمل ناڈو، کیرالہ، آسام اور پڈوچیری اسمبلی انتخابات اور کئی ریاستوں کی 3 لوک سبھا اور 14 اسمبلی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے لئے ووٹوں کی گنتی جاری
نئی دہلی: 2/ مئی (ایس او نیوز/ایجنسی) مغربی بنگال ، تمل ناڈو ، کیرالہ ، آسام اور پڈوچیری اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہی مختلف ریاستوں کی تین لوک سبھا اور 14 اسمبلی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے لئے ووٹوں کی گنتی سکیورٹی کے سخت انتظامات اور کووڈ 19 کے ضابطوں کے ساتھ اتوار کی صبح آٹھ بجے شروع ہو چکی ہے ۔ اور دوپہر تک آنے والے رجحانات کے مطابق آسام کو چھوڑ کر دیگر تمام ریاستوں میں کنول کا پھول مرجانا طئے لگ رہا ہے۔
مغربی بنگال میں کل 294 اسمبلی سیٹوں میں سے 292 سیٹوں پر آٹھ مرحلوں میں ووٹنگ کرائی گئی تھی جبکہ شمشیرجنگ اورجنگی پور اسمبلی حلقوں سے دو امیدواروں کی موت کی وجہ سے انتخابات ملتوی کردیئے گئے تھے۔ ریاست کے 108 ووٹ شماری مراکز پر تین سطحی سیکورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں ، جہاں قائم اسٹرانگ روم میں ای وی ایم اور وی وی پیٹ کو سخت سکیورٹی میں رکھا گیا ہے۔
ووٹ شماری مراکز میں کم از کم 292 مبصرین اور مرکزی سکیورٹی فورسز کی 256 کمپنیاں تعینات کی گئی ہیں ۔ انتخابات میں 2116 امیدواروں نے اپنی قسمت آزمائی ہے ۔ یہاں اصل مقابلہ حکمراں ترنمول کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے درمیان ہے ، حالانکہ کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا یا ہے ۔
تمل ناڈو میں 234 سیٹوں پرہوئے انتخابات کے ووٹوں کی گنتی کے لئےتین سطحی سکیورٹی کے لئے ریاستی پولیس اہلکاروں کے علاوہ مرکزی نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا ہے ۔ تمام ووٹ شماری مراکز میں ویڈیو گرافی اور سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں۔ گزشتہ 6 اپریل کو ہونے والے انتخابات میں 3،998 امیدوار میدان میں تھے۔ یہاں حکمراں اے این اے ڈی ایم کے جیت کی ہیٹ ٹرک پرنظر بنائے ہوئے ہے ، جبکہ حکومت مخالف لہر کا دعوی کرنے والی ڈی ایم کے 10 سال تک حزب اختلاف میں رہنے کے بعد اقتدار میں آنے کے لئے بیتاب ہے ۔
کیرالہ میں 140 سیٹوں پر انتخابات کے ووٹوں کی گنتی ہو رہی ہے۔ جہاں اپنی قسمت آزمانے والوں میں وزیر اعلی پنارائی وجین (دھرم دام) ، بی جے پی کے ریاستی صدر کے سریندرن (منجیشورم) ، میٹرو مین ای شری دھرن ، وزیر صحت کے کے شیلجا (مٹنور) ، سابق وزیر اعلی اومان چانڈی (پتھپلی) ، وزیر ای چندرشیکھرن اور سابق ڈی جی پی۔ جیکب تھامس شامل ہیں ۔
شمال مشرق میں 126 سیٹوں والے آسام میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیرقیادت ’میترجوت‘ اور کانگریس کی زیرقیادت ’مہاجوت‘ دونوں ہی اتحادی جماعتوں نے ریاست میں اگلی حکومت بنانے کا دعوی کیا ہے۔
مرکز کے زیر انتظام علاقہ پڈوچیری اسمبلی کی 30 سیٹوں پر اصل مقابلہ ترقی پسند اتحاد اور قومی جمہوری اتحاد کے درمیان ہے۔اس کے علاوہ آندھرا پردیش کی تروپتی ، کرناٹک کی بیلگام اور تامل ناڈو کی کنیاکماری لوک سبھا سیٹوں پر ضمنی انتخابات سمیت راجستھان کی سہارا ، راجسمند ، کرناٹک کی باسوکلیان اور مسکی ، دموہ (مدھیہ پردیش) ، پنڈھر پور (مہاراشٹرا) ، سالٹ (اتراکھنڈ) ، سیرچھپ (میزورم) ، نوکسین (ناگالینڈ) ، پپلی (اڈیشہ) اور ناگ ارجن ساگر (تلنگانہ) اسمبلی سیٹوں پر ہوئےضمنی انتخابات کےووٹوں کی گنتی بھی شروع ہوگئی ہے۔
مغربی بنگال میں بی جے پی کو سو کے قریب سیٹوں پر جیت کے آثار
جن پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابی نتائج پر آج لوگوں کی نظر بنی ہوئی ہے، ان میں مغربی بنگال سب سے زیادہ اہم ہے۔ بی جے پی نے بنگال میں 200 سیٹیں حاصل کرنے کا ہدف رکھا تھا اور پارٹی لیڈران نے انتخابی ریلیوں کے دوران ہندو ووٹوں کو پولرائز کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی، لیکن اب جب کہ ریاست کی سبھی اسمبلی سیٹوں کا رجحان سامنے آ چکا ہے، بی جے پی کو زبردست جھٹکا لگتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ رجحانات میں صاف پتہ چل رہا ہے کہ مغربی بنگال کی عوام نے بی جے پی کے ساتھ ’کھیل‘ کر دیا ہے۔ عوام نے ایک بار پھر ترنمول کانگریس پر بھروسہ ظاہر کیا ہے اور پی ایم مودی کے ساتھ ساتھ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے وعدوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔
292 اسمبلی سیٹوں والی ریاست مغربی بنگال میں حکومت سازی کے لیے 147 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور تازہ رجحانوں پر نظر ڈالی جائے تو ترنمول کانگریس نے قریب دوسو سیٹوں پر سبقت بنا لی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کی سبقت 100 سے بھی کم سیٹوں پر ہے۔ حالانکہ شروع میں بی جے پی 115 سیٹوں سے زیادہ پر سبقت حاصل کرتی نظر آرہی تھی اور پارٹی لیڈران بار بار یہی کہتے نظر آ رہے تھے کہ یہ شروعاتی رجحانات ہیں اور حالات جلد بہتر ہوں گے۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ہی بی جے پی کا ’کھیل‘ خراب ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے، اور ایسا لگ رہا ہے جیسے بہت جلد بی جے پی کی سبقت 90 سیٹوں سے بھی نیچے چلی جائے گی۔
ویسے دیکھا جائے تو بی جے پی کے لیے موجودہ کارکردگی کافی حوصلہ افزا ہے، کیونکہ مغربی بنگال میں اس کے اراکین اسمبلی کی تعداد اس وقت محض 3 ہے، اور اس مرتبہ رجحانات میں بی جے پی کی سیٹوں میں زبردست اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لیکن جس طرح سے وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سمیت بی جے پی کے دیگر سرکردہ لیڈروں نے ترنمول کانگریس لیڈر اور بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے خلاف مہم چلائی اور بی جے پی کو بنگال کا حقیقی خیر خواہ پارٹی بتا کر برسراقتدار ہونے کا منصوبہ تیار کیا، اس پر پوری طرح پانی پھرتا نظر آ رہا ہے۔ تازہ رجحانات کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ عوام نے مودی-شاہ کے وعدوں پر یقین نہیں کیا اور مغربی بنگال میں ’پولرائزیشن کا کھیل‘ کھیلنے پہنچی بی جے پی کے ساتھ ہی ’کھیل‘ کر دیا۔