کورونا وائرس کی سنگینی کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے؛ بازاروں میں غیر ضروری گھومنے سے پرہیز اور سرکاری ہدایات پر سختی سے عمل کریں
بنگلورو،27؍مارچ (ایس او نیوز؍خصوصی رپورٹ) ہندوستان میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، اس وقت اس خطرناک وائرس سے متاثر لوگوں کی تعداد کے حساب سے مہاراشٹرا نمبر ایک کیرالہ نمبر2 جبکہ کرناٹک نمبر 3 پر ہے۔
حالانکہ پورے ملک میں 14؍اپریل تک مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن کی مدت میں آئندہ اضافہ بھی ہوسکتا ہے، لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے منع کیا جارہا ہے اس کے باوجود شہر بنگلورو کے مسلم اکثریت والے اکثر علاقوں میں گلی کوچوں اور بازاروں میں لوگوں کی بھیڑ عام دنوں سے زیادہ دیکھی جارہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے مسلمان اس وائرس کی سنگینی کو محسوس نہیں کررہے ہیں۔ یہ لوگ بازاروں میں گھومنے پھرنے کے دوران انجانے میں کسی کو کووڈ۔19 سے متاثرہ شخص سے ہاتھ ملالیا اس سے کچھ خرید لیا تو اس کا انفکیشن یا جراثیم ضرور آپ میں منتقل ہوسکتے ہیں۔
اس حالات میں آپ جب اپنے گھرواپس جاتے ہیں تو وہ جراثیم آپ کے ننھے منے بچوں اور اہل خانہ میں آسانی سے منتقل ہوسکتے ہیں۔ سخت ہدایت کے باوجود غیر ضروری بازاروں اور بھیڑ بھاڑ کے مقامات پر گھومنے والے لوگ خود کے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے اہل خانہ کے لئے بھی خطرہ پیدا کررہے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا مریض کس کو فت اور مشکل سے گذرتے ہیں اس کے مناظر سوشیل میڈیا پر پوسٹ کئے جارہے ہیں۔ یہ مناظر دیکھیں تو غیر ضروری طور پر آزادی سے بازاروں میں گھومنے والے لوگ اپنے گھروں سے بھی باہر نکلنا بند کردیں گے۔
بنگلورو ساؤتھ کے چند مسلم اکثریت والے علاقے میں جیسے گروپن پالیہ، بی ٹی ایم فسٹ اسٹیج، بسم اللہ نگر، تلک نگر، یارب نگر، الیاس نگرمیں آپ کے نمائندہ نے دیکھا کہ لوگ بلاخوف آزادی سے غیر ضروری بازاروں ، بھیربھاڑ میں گھوم پھررہے ہیں۔ گویا ایسا لگ رہا تھا کہ کسی عید اور چھٹیوں کے موقع پر اس طرح آزادی سے گھوم پھر کر وقت ضائع کیا جاتا ہے۔
اُسی دن ہم ایک سرکاری کام کے سلسلہ میں بنگلورو پولیس کمشنر کے دفتر گئے۔ داخلہ میں ہر فرد کا الیکٹرانک آلہ کے ذریعہ ٹمپریچر کی جانچ کے بعد سینٹائرر سے دونوں ہاتھ صاف کئے جاتے ہیں۔ اگر منہ پر ماسک نہ ہو تو کم از کم اپنی دستی سے چہرہ کور کرنے کیلئے کہا جاتا ہے ۔ اتنی احتیاط کے باجود ہم دفتر میں کسی افسر یا ملازم سے ملاقات کرنے جاتے ہیں تو وہ پہلے ہی بلند آواز سے ہدایت دیتے ہیں کہ دور ہی کھڑے رہیں، دو تین میٹرس کی دور سے ہی ہمیں جو کہنا ہے وہ کہنا پڑتا ہے ۔ اگر کوئی عرضی ہم اُنہیں دینا چاہیں تو ایک ٹرے رکھا ہے اس میں ڈالنے کے لئے کہتے ہیں۔ راست کوئی کاغذ بھی وصول نہیں کیا جاتا۔ یہ سب اگر ہم مسلمان بھائی بہنوں سے کہتے ہیں تو وہ کہیں گے کیوں اللہ کی ذات پر یقین نہیں ہے۔ حالانکہ اللہ نے بھی کہا کہ کہ ایسی وبائی بیماریوں سے احتیاط برتنی چاہئے اور ضرورت پڑنے پر مناسب علاج بھی کروانا چاہئے۔ اس وباء کی زد میں آنے سے پہلے اس مرض کی سنیگنی کو محسوس کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر کرنی چاہیئں۔ اللہ نہ کرے کسی مسلم اکثریت والے علاقہ میں اس وائرس سے متاثر چار پانچ معاملے نکل آئے تو موجودہ حکومت اس علاقہ پر توجہ دینے سے بھی منہ موڑ سکتی ہے، اس وقت کیا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ طبی امداد اور میڈیکل ٹکنالوجی میں دنیا بھر میں اٹلی کو دوسرا مقام حاصل ہے۔ وہاں کے لوگوں نے ابتدائ میں غفلت برتی، احتیاطی اقدامات نہیں کئے، نتیجتاً ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں، انہیں غسل دینے اور دفن کرنے کوئی آگے نہیں آرہا ہے۔
سرکاری کارندے انہیں ایک پلاسٹک بورے میں لپیٹ کر کسی ٹرک میں لاد کر جنگل لے جاکر ایک بڑے کھڈے میں دھکیل کر ان پر مٹی نہیں بلکہ پٹرول چھڑک کر آگ لگارہے ہیں تا کہ ان فوت ہونے والوں سے وائرس دوسروں تک منتقل نہ ہوسکے۔
الیکٹیو سرجریز کیلئےآلات اور میڈیسن دستیاب نہیں: ریاست کرناٹک کے ایک نامور سرجن ڈاکٹر ایف صدر الدین شریف نے گفتگو کے دوران بتایا کہ بشمول شہر بنگلوو کے جئے دیوا اسپتال اکثر اسپتالوں میں صرف ایمرجنسی معاملوں کی سرجری اور علاج ہورہا ہے۔ کوئی الیکٹیو سرجری نہیں کی جارہی ہے۔ اس کی وجہ دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ کل ہی سے امیزان اور فلپ کارٹ نے اپنی سروس بند کردی ہے۔ ایلکٹیو سرجریز کیلئے میڈیکل ساز و سامان کہیں بھی دستیاب نہیں یہاں تک کہ بلڈ بینکوں سے مریض کو درکار خون بھی مشکل سے دستیاب ہورہا ہے۔ اگر یہی صورتحال اگلے دو تین ماہ تک جاری رہی تو کورونا کے علاوہ مختلف سرجریوں جن میں امراض قلب کی سرجریز بھی شامل ہیں کا انتظار کررہے کرناٹک کے سینکڑوں مریض بروقت سرجریزنہ ہونے کی وجہ سے فوت ہوسکتے ہیں، اس لئے کورونا وائرس پر جلداز جلد قابو پانا اشد ضروری ہے۔ اس کیلئے احتیاط اور سرکاری اعلانات پر سختی سے عمل کرنا بے حد ضروری ہے۔
(بشکریہ : روزنامہ سالار، بنگلووو؍بتاریخ 27؍مارچ 2020)