کورونا وباء بھٹکل والوں کے لئے بن گئی ایک آفت۔فرقہ پرست نہیں چھوڑرہے ہیں مخصوص فرقے کو بدنام کرنے کا موقع، ہاتھ ٹوٹنے کی وجہ سے بچی کو منگلورو لے جانے پر گودی میڈیا نے مچایا واویلا
بھٹکل 13/مئی (ایس او نیوز) بھٹکل کے مسلمانو ں کے لئے بیماری بھی فرقہ وارانہ رنگ و روپ لے کرآتی ہے اورانہیں ہر مرحلے پر نئی ہراسانیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔کورونا کی وباء ایک طرف مرض کے طور پر مصیبت بن گئی ہے تو کچھ فرقہ پرستوں کی طرف سے اس کو متعصبانہ رنگ دیا جارہا ہے اور یہ دوسری مصیبت بن گئی ہے۔
اس کی تازہ مثال بھٹکل کے ایک معروف شخص جناب ثناء اللہ گوائی کے ساتھ پیش آئی ہے۔ جب10/مئی کو ان کی نواسی(عمر6سال) رات کے وقت گھر میں کھیلتے ہوئے نیچے گرگئی اور اس کے ہاتھ میں تین جگہ ہڈیا ں ٹوٹ گئیں۔ اسے ایمرجنسی علاج کی ضرورت تھی تو انہوں نے میڈیکل ایمرجنسی کا پاس لے کر کنداپور جانے کا منصوبہ بنایا۔ ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ رات کافی ہوجانے کی وجہ سے ڈی وائی ایس پی اور اسسٹنٹ کمشنر سے بات چیت کرکے زبانی طور پر اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد وہ کنداپور پہنچے اور پھر وہاں پر بچی کی حالت بہت نازک ہونے کی وجہ کنداپور اسپتال سے اس کو منگلورو منتقل کیاگیا اور وہاں ا س کا فوری طور پر آپریشن کیا گیا۔
بھٹکل کا فرقہ وارانہ میڈیا:لیکن اس واقعے کو لے کر بھٹکل کے کچھ فرقہ پرست عناصر نے میڈیا میں ایک ہنگامہ کھڑا کردیا کہ تعلقہ انتظامیہ یا پولیس سے مناسب اجازت نامہ حاصل کیے بغیر اور کنداپور جانے کی بات کہہ کر وہ منگلورو چلے گئے اور اس کے لئے انہوں نے جھوٹی کہانی گھڑی ہے۔اس طرح کورونا کے پس منظر میں ایک مخصوص طبقے کونشانہ بنانے اور مزید تنگ کرنے کا موقع نکالا گیا ہے۔
گھر والوں کی وضاحت:اپنی طرف سے کنڑا اخبار میں وضاحت شائع کرنے والے بچی کے گھر والوں نے بتایا کہ بچی کے ساتھ حادثہ رات 9 بجے کے قریب پیش آیا تھامگر کنداپور جانے کے لئے ڈیزل حاصل کرنے اور دیگر تیاریاں کرنے تک رات کے تقریبا12بج گئے۔ پاس نہ ہونے کی وجہ سے ڈی وائی ایس کی زبانی اجازت پر وہ سفر پر نکلے تو شیرور چیک پوسٹ پر انہیں روکا گیا۔ وہاں سے زبانی اجازت کی تصدیق کے لئے ڈی وائی ایس پی سے رابطہ کرنے کی کوشش ناکام رہی۔ پھر وہاں پر موجود خاتون پولیس آفیسر نے بچی کا لٹکتا ہوا ہاتھ اور بچی کی پریشانی دیکھ کر ترس کھایااور اس نے اپنے اعلیٰ آفیسر سے ان لوگوں کے لئے سفر کی اجازت مانگی۔ اس طرح وہ لوگ کنداپور تک پہنچے۔
کنداپور اسپتال سے منگلورو کی طرف:کنداپور کے ماہر ڈاکٹر نے بچی کی حالت، اس کی عمر اور فریکچر کی پوزیشن دیکھ کر یہ رائے دی کہ کنداپور میں ایمرجنسی آپریشن کرنا ممکن نہیں ہے اور تاخیر سے بچی کی حالت اور بگڑ سکتی ہے۔ اس نے منگلورو کے لئے کیس ریفر کردیا اور کسی بھی چیک پوسٹ پر بچی کو نہ روکنے کی درخواست کرنے والی ایک تحریر بھی دے دی۔جب وہ منگلوروکے ایک نجی اسپتال میں بچی کو داخل کرنے لگے تو انہوں نے آدھار کارڈ وغیرہ مانگااور گھر والوں نے بچی اور اس کی والدہ کا آدھار کارڈ بھی دے دیا۔
بھٹکل نام سے اسپتال میں تشویش: ایک طرف بچی کا ایمرجنسی کا آپریشن ہورہاتھا تو دوسری طرف بچی اور اس کی ماں کے کارڈ پر بھٹکل مدینہ کالونی کا پتہ درج ہونے سے اسپتال اسٹاف میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔معلوم ہوا ہے کہ جب بچی کا داخلہ کیا جارہاتھا تو گھر والوں نے بتایا کہ کنداپور اسپتال سے یہاں ریفر کیا گیا ہے۔ مگر اسپتال والے سمجھے تھے کہ مریض اور اس کے گھر والے کنداپور کے رہنے والے ہیں۔ بعد میں شناختی کارڈ میں بھٹکل کا پتہ دیکھ کر انہیں خواہ مخواہ ہی شبہ ہوا کہ گھروالوں نے غلط بیانی کرکے بچی کو اسپتال میں داخل کروایا ہے۔
کھانسنا بن گیا مصیبت: اسی دوران ایک اور مصیبت یہ ہوئی کہ بچی کی حالت دیکھ کر اس کی ماں کمرے میں آنسو بہا رہی تھی۔ اس وقت دو تین بار اس نے کھانس کراپنا گلا صاف کیا۔ کھانسی کی آواز سن کر ہاسپٹل اسٹاف بدک گیا۔ اور ا ن پرکورونا سے متاثر ہونے کے شکوک شبہات کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔فوری طور پر بچی اور اس کی ماں کے گلے سے تھوک کے نمونے حاصل کرکے جانچ کے لئے بھیج دئے گئے۔ بچی کا آپریشن مکمل ہونے کے بعدصحت میں کافی سدھار آیا ہے ۔ ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ کورونا کی جانچ رپورٹ ملنے کے بعد بچی کو ڈسچارج کردیا جائے گا اور ثناء اللہ صاحب نے بتایا کہ آج کورونا رپورٹ بھی آگئی ہے اور وہ نیگیٹو ہے۔
فرقہ پرست ذہنیت سے اذیت: مگر پریشانی اور تشویش کی بات یہ ہے کہ آدھی رات سے صبح تک بچی حادثے کی وجہ سے بڑی سنگین حالت سے گزر رہی تھی۔ اس کے گھر والے انتہائی ذہنی پریشانی کا شکار تھے۔مگر اس مرحلے میں بھی صبح ہوتے ہوتے بھٹکل کے ایک اخباری نمائندے نے اپنی متعصبانہ سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سارے واقعے کو ایک جھوٹی کہانی قرار دیا اور پولیس اور انتظامیہ کو اندھیرے میں رکھ کر کنٹینمنٹ ایریا سے باہر دوسرے اضلاع کا سفر کرنے اور اسپتال میں بچی کوداخل کرنے کے لئے جھوٹی معلومات دینے کا الزام ان لوگوں کے سر رکھ دیا۔ اس کے بعد دیگر الیکٹرانک میڈیا میں بھی اس کو اچھالا گیا۔گھر والوں کا الزام ہے کہ ڈپٹی کمشنر ضلع شمالی کینرا کو بھی جھوٹی اطلاعات فراہم کرتے ہوئے غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
کیا فرقہ واریت کی اور کوئی مثال ہوسکتی ہے؟:حالانکہ گھروالوں کی طرف سے پولیس او رانتظامیہ کو اصل صورت حال سے پوری طرح باخبر کردیا گیا ہے اور ایک اطلاع کے مطابق محکمہ کی طرف سے اپنے طور پر اس کی تحقیق بھی کرلی گئی ہے، مگر بچی کے گھر والے کچھ نام نہاد میڈیا والوں یا نفرت کی سیاست کرنے والوں کی طرف سے ہونے والی ذہنی اذیت اور کوفت سے حیران ہوگئے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ بھٹکلی مسلمان ہونا کیا واقعی کوئی گناہ ہے، جس کی وجہ سے کورونا جیسے مرض کے لئے بھی انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے یا کسی حادثے کو بھی سازش قرار دیا جائے؟کیا فرقہ وارانہ سوچ اور تعصب کی اس سے بڑی مثال کچھ اور ہوسکتی ہے؟!
تعلقہ انتظامیہ اور مینگلور میں جماعت کے ذمہ داران نے دیا ساتھ: بچی کے علاج کو لے کر ویسے تو پریشان کن حالات سامنے آئے، لیکن تعلقہ انتظامیہ بالخصوص بھٹکل اسسٹنٹ کمشنر، ڈی وائی ایس پی سمیت شیرور چیک پوسٹ پر تعینات پولس اہلکار اور اُڈپی تعلقہ انتظامیہ سمیت مینگلور میں بھٹکلی جماعت المسلمین کے صدر جناب ارشد محتشم اور ان کی فیملی اور ڈاکٹر سراج محتشم وغیرہ نے بھرپور ساتھ دیا جس کی بنا پر بچی کا بروقت علاج ممکن ہو سکا۔ جناب ثنا ء اللہ نے اس موقع پر ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا ہے ۔