کورونا وائرس کا نیا روپ 'اومیکرون': پھر سے بجنے لگیں خطرے کی گھنٹیاں ! ......(خصوصی رپورٹ : ڈاکٹر محمد حنیف شباب)
جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کورونا وائرس کی وباء سے دنیا آزاد ہوچکی ہے اور عام زندگی معمول پر آگئی ہے تو ان کا خیال غلط ثابت کرنے والی خبریں اب آنا شروع ہوگئی ہیں ۔ کیونکہ کورونا وائرس کے بدلتے روپ (variant) 'ڈیلٹا' کے بعد اب مزید خطرناک تبدیل شدہ شکل سامنےآئی ہے جسے'اومیکرون' کا نام دیا گیا ہے ۔
تیسری لہر کا اندیشہ تھا : امسال کورونا کی دوسری لہر کے شروع میں ہی طبی ماہرین نے اس بات کا امکان جتایا تھا کہ اکتوبر سے نومبر کے درمیان اس بیماری کی تیسری لہر سامنے آ سکتی ہے جس سے متاثر ہونے والوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔ اُس وقت اس بیماری کا انکار کرنے یا اس کے وجود پر شک و شبہ ظاہر کرنے والوں نے مضحکہ خیز تبصرے کیے تھے اور اسے طبی ماہرین کی طرف سے عوام کو خوفزدہ کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔
ڈبلیو ایچ او نے جاری کیا الرٹ : 9 نومبر کو ساوتھ افریقہ سے کورونا وائرس کی نئی شکل B.1.1.529 کی تصدیق ہونے کے بعد 24 نومبر کو اس کی اطلاع ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کو دی گئی تھی ۔ جس نے اسے کورونا کا 'تشویشناک روپ' بتاتے ہوئے 'اومیکرون' کا نام دیا اور دنیا کے ممالک کو اس وائرس سے ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ہدایات جاری کیں ۔ کیونکہ وائرس کا یہ نیا روپ دوبارہ حملہ آور ہونے (ری انفکیشن) کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے ۔ اور یہ بہت بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے ۔
کیا کہا ساوتھ ایشیا ریجنل ڈائرکٹر نے : ڈبلیو ایچ او کی ساوتھ ایشیا ریجنل ڈائرکٹر ڈاکٹر پونم کھیترپال سنگھ کا کہنا ہے : "اس علاقہ کے بہت سے ممالک میں کووڈ 19 کے معاملات گھٹتے جارہے تھے، لیکن دنیا کے دوسرے مقام سے اس وائرس کے نئے 'تشویشناک روپ' وجود میں آنے کی جو تصدیق ہوئی ہے وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خطرہ ابھی بھی موجود ہے اور اس سے بچنے اور اس کے پھیلاو کو روکنے کے لئے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ۔ کسی بھی قیمت پر ہمیں اس سے غفلت نہیں برتنی چاہیے ۔ جتنی جلد ہم حفاظتی اقدامات کریں گے ، اتنی ہی کم پابندیاں لگانی پڑیں گی ۔ اور جتنا زیادہ ہم کووڈ 19 کو پھیلنے کے مواقع دیں گے ، اتنے ہی لمبے عرصہ تک یہ 'عالمی وباء' (پینڈامک) چلتی رہے گی۔"
کیا ویکسین کام کرے گا ؟ : اس وقت طبی ماہرین کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ کھڑا ہوگیا ہے کہ جو ویکسین اب تک دستیاب ہے اور دنیا کی ایک بڑی آبادی کو دیا جا چکا ہے کیا وائرس کی اس شکل پر بھی کارآمد ہوگا ؟ لیکن ماہرین فی الحال اس پر کوئی مثبت جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ چونکہ اس نئے روپ میں وائرس کے اندر ری انفیکشن کی صلاحیت دیکھی گئی ہے اس لئے شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ جن لوگوں کو ویکسین لگایا جا چکا ہے ان پر بھی یہ حملہ آور ہوسکتا ہے ۔ جبکہ ساوتھ افریقہ میں دوبارہ انفیکشن سے متاثر ہونے والوں میں فائزر - بایواین ٹیک ، جانسن اینڈ جانسن اور آکسفورڈ - ایسٹرا زینیکا جیسی ویکیسن بنانے والی کمپنیوں میں سے کوئی ایک ویکسین لگا چکے افراد بھی شامل ہیں ۔ ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس پہلو پر تحقیق کر رہی ہیں ۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ اگلے دو ایک ہفتے کے اندر کوئی حتمی بات سامنے آجائے ۔
کیا کہتے ہیں تحقیق کار : 25 نومبر کو جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی آف کوازولو-ناتال میں متعدی بیماریوں کے فزیشین رچرڈ لیسلس نے کہا : "اس تبدیل شدہ شکل کے بارے میں ہم بہت کچھ نہیں جانتے ۔ اس کے میوٹیشن کا جو پروفائل ہے اس سے ہمیں تشویش ہو رہی ہے ۔ لیکن ہمیں وائرس کی اس تبدیل شدہ شکل کی خصوصیات کو سمجھنے اور پینڈیمک کی صورتحال پر اس کے اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ وائرس کی اس شکل کو 'جینو سیکوینسنگ' کے بجائے 'جینو ٹائپنگ' طریقہ سے جلد از جلد پہچان سکتے ہیں ۔"
آکسفورڈ یونیورسٹی میں 'وائرس ایولوشن' کے ریسرچ اسکالر ایریس کاٹزوراکیس نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "چونکہ اس کے اندر اتنی ساری تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں ، اس لئے ممکن ہے کہ کہیں یہ ویکیسین کے کارآمد نتائج میں کمی کرنے کا سبب نہ بن جائے ۔"
مدافعتی عمل سے بچ نکلتا ہے : یونیورسٹی آف وٹواٹرس رینڈ جوہانسبرگ سے وابستہ ویرولوجسٹ پینی مورے کا خیال ہے کہ : وائرس کی بہت ساری بدلی ہوئی شکلیں مسائل کھڑی کرتی ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر مدافعتی عمل سے بچنے میں وائرس کی مدد کرتی ہیں ۔ جبکہ بعض دوسرے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جسم مدافعتی نظام میں ٹی سیل کی جو کارکردگی ہے اس سے بچ نکلنے میں شاید 'اومیکرون' کامیاب ہوسکتا ہے ۔
ہندوستان میں جاری ہوا الرٹ : کووڈ 19 کے اس نئے روپ کی خبروں سے بین الاقوامی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ تازہ اقدام میں اسرائیل نے غیر ملکیوں کی آمد پر 14 دن تک کے لئے روک لگا دی ہے ۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی الرٹ جاری کیا گیا ہے ۔
ملک کی تمام ریاستوں اور یونین ٹیریٹریز کے نام مرکزی ہیلتھ سیکریٹری راجیش بھوشن نے جو پیغام بھیجا ہے اس کے مطابق نیشنل سینٹر فار ڈیسیز کنٹرول (این ڈی سی) نے مرکزی حکومت کو مطلع کیا ہے کہ بوٹسوانا، ہانگ کانگ اور ساوتھ افریقہ میں تبدیل شدہ وائرس انفیکشن کے کئی معاملے دیکھے گئے ہیں ۔ چونکہ اس میں بہت سی تبدیلیاں ہوئی ہیں جس سے ملک کے عوام کی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں ۔ اس لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ خطرے کی زد والے ممالک سے آنے والے بین الاقوامی مسافروں کی سختی کے ساتھ جانچ اور معائنہ کیا جائے ۔
کیا کہتے ہیں کیجریوال : ادھر دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے ایک ٹویٹ کے ذریعے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ساوتھ افریقہ ، بوٹسوانا اور ہانگ کانگ جیسے جن ممالک میں اس وائرس کی موجودگی ثابت ہورہی ہے ان ممالک سے طیاروں کی آمد پر روک لگا دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ " ہمارے ملک نے بڑی مشکل سے کورونا وباء پر قابو پایا ہے ۔ اس لئے اب اس نئے روپ والے انفیکشن کو ہمارے ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی ۔ یہ ٹویٹ کوورونا کی نئی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے وزیر اعظم نریندرا مودی کی صدارت میں منعقدہ میٹنگ سے پہلے کیا گیا جس میں کیبینٹ سیکریٹری راجیو گوبا، پرنسپال سیکریٹری برائے وزیر اعظم پی کے مشرا، ہیلتھ سیکریٹری راجیش بھوشن اور نیتی آیوگ (ہیلتھ) رکن ڈاکٹر وی کے پال شریک ہوئے تھے ۔
کیرالہ میں بھی الرٹ : کیرالہ کی وزیر صحت نے وینا جارج نے بتایا کہ انٹرنیشنل مسافروں کے لئے کوارنٹین کا اصول پھر سے لاگو کرنے پر غور کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ مرکزی حکومت کے ساتھ برابر رابطہ میں ہیں اور جو بھی ہدایات وہاں سے ملیں گی اس پر عمل کیا جائے گا ۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس وقت ملک میں روزانہ کورونا کے جو معاملے میں سامنے آ رہے ہیں اس میں سے 50 فیصدی کیرالہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔
کرناٹکا میں بھی چوکسی : کورونا وائرس کے نئے روپ سے بچنے کے لئے کرناٹکا نے کیرالہ اور مہاراشٹرا سے آنے جانے افراد کے لئے کووڈ ٹیسٹ لازمی کردیا ہے ۔ جبکہ ریاست کے اندر کووڈ پروٹوکول پر عمل پیرائی اور ویکسینیشن کے سلسلے میں عوامی بیداری کی مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ بنگلورو میونسپل کارپوریشن کے کمشنر نے بس اسٹاپس، بس ٹرمینلس اور ریلوے اسٹیشنوں پر مسافروں کا کووڈ ٹیسٹ کرنے کے لئے خصوصی ٹیمیں مختص کرنے کی بات کہی ہے ۔