کورونا =این پی آر !!! ...... از: مدثر احمد
طوفان نوح سے قبل حضرت نو ح علیہ السلام نے کئی دعائیں اللہ رب العزت کے حضور میں مانگیں ، اس دوران جب وہ کشتی بنارہے تھے انکی قوم نے ان سے سوال کیا کہ اے نوح آخر کیا بات ہے کہ آپ خشکی پر کشتی بنارہے ہیں جبکہ پانی میں کشتی بنائی جاتی تھی ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کہا کہ میرے رب کا عذاب آنے والا ہے اور وہ عذاب اللہ کو انکار کرنے والوں کو لے ڈوبے گااس لئے بہترہے کہ تم بھی ایمان لائو ۔ حضرت نوح ؑ کی اس نصیحت کے باوجود نوح ؑ کی قوم نے انکے حکم کو ماننے سے انکار کردیا ۔ جب طوفان آیا تو نوح ؑ نے تمام مخلوقات کے جوڑوں اور ایمان والوں کو کشتی میں سوار کرلیا اور طوفان نوح میں کشتی بہنے لگی ۔ نوح ؑ نے کئی دعائیں کشتی بنانے کی ابتداء سے لے کر طوفان رکنے تک مسلسل دعائیں کی ، وہ اللہ کے برگزید ہ بندے تھے باوجود اسکے انہوںنے عذاب سے بچنے کے لئے کشتی کی تعمیر کی ۔ جبکہ دعائوں کا سلسلہ بھی نہیں چھوڑا ۔ ہم اس واقعے کو مختصر اس وجہ سے بتارہے ہیں کہ آج دنیا کی حالت بہت ہی خراب ہوچکی ہے ، جن بیماریوں اور حالات کا خدشہ اگلی صدی میں ہونے کی قیاس آرائی کی جارہی تھی وہی حالت اب دنیا پر ظاہر ہونے لگی ہے ۔ ایسے میں انسانوں کی تمام تدبیریں ناکام ہوچکی ہیں اور انسان کسی نہ کسی طرح کے سہارے کا طلبگار ہوچکا ہے ۔ لیکن دوسری جانب ہم اہل ایمان کے پاس علم و حکمت کا خزانہ ہونے کے باوجود اس علم کو وظیفوں کی شکل میں پیش کرتے ہوئے اپنے ایمان کو کمزور کررہے ہیں جبکہ وظیفے ، دعائیںتو نوح ؑ کے پاس بھی تھے پھر بھی وہ اپنی قوم اور مخلوقات کو بچانے کے لئے دنیا کی سب سے بڑی کشتی کی تعمیر کرتے رہے ۔ اگر وہ چاہتے تو صرف وظیفوں اور دعائوں سے ہی اپنی قوم کو بچاسکتے تھے اور اللہ کے پاس سب کی جانوں کی امان مانگ سکتے تھے لیکن انہوںنے ایسا نہیں کیا اور نہ ہی اللہ کی ایسی مرضی تھی ۔ آج ہم کورونا کی بات کریں یا ین پی آر و سی اے اے کی دونوں معاملات میں اللہ سے مدد کی امیدیں لگائے ہوئے ہیں جبکہ وہ قومیں جن کا علم سے کوئی واسطہ نہیں وہ قومیں آج ہم پر مسلط ہوچکی ہیں اور وہی قومیں تحقیق اور تجربوں کی دنیا میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ حضرت دائود علیہ السلام کا پیشہ لوہا ر کا تھا ، ان پر جو آسمانی کتاب نازل ہوئی وہ زبور تھی او ر اسمیں شاعرانہ انداز میں اللہ کا پیغام تھا، حضرت دائود علیہ السلام کی قوم جب اس کتاب کو پڑھتے تھے تو انکے دل نرم ہوجاتے تھے اور اس قوم میں یہودی تھے ، دوسری ایک کتاب نازل ہوئی انجیل ۔ یہ کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی ، جبکہ انکی قوم میں چرواہے تھے اور وہ اس کتاب کو سننے کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگئے تھے وہ عیسائی کہلانے لگے ۔ اب تیسری کتاب جن پر نازل ہوئی وہ ہیں ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ، حضرت محمد ﷺپر جو کتاب اتری ہے وہ کتاب قرآن ہے ، یہ کتاب مجید ، یہ کتاب حکیم ، یہ کتاب شریف اور یہ کتاب علم کا سمندر ہے ، یہ کتاب اللہ کے احکامات ہیں اور یہی کتاب اللہ کے نبی ﷺ کی عملی زندگی کا عکس ہے ۔ اب غورکریں کہ لوہا ر قوم یہودیوں کی دنیا پر راج کررہی ہے اور اسرائیل جیسے چھوٹے سے ملک میں رہ کر پوری دنیا کو قبضے میں کی ہوئی ہے وہیں عیسائی اس دنیا پر بادشاہت قائم کرنے ، علم و ہنر کے میدان میں آگے بڑھنے اور دوسری قوموں کو پیچھے چھوڑنے کے لئے پوری طرح سے پابند ہیں جبکہ اس نبی کے امتی جس نے اپنے آپ کو ہادی اور معلم بتایا تھا وہی امتی تعلیمی میدا ن سے دور ہوگئی ہے ۔ ہمارے اہل علم طبقے نے علم کو دو حصوں میں بانٹ لیا ہے تاکہ ایک علم پر مسلمان عبور حاصل کرسکیں لیکن آج حالت اس قدر بدتر ہے کہ مسلمان نہ دین کے ہیں نہ دنیا کے۔ دین کے نام پر تعلیم حاصل کرنے والے بیشتر طلباء یا تو درمیان میں تعلیم کو منقطع کرلیتے ہیں یا پھر مکمل ہونے کے بعد بھی کامل یقین نہیں رکھتے نہ ہی ایمان کو مضبوطی سے تھامے رہتے ۔ دوسری جانب عصری تعلیم حاصل کرنے والے اکثر طلباء بے راہ روی کا شکار ہیں اور انکے پاس جو علم کا خزانہ ہوتا ہے اس خزا نے کو وہ اپنی ضرورت کے لئے ہی استعمال کرتے ہیں نہ کہ انسانیت کی مدد کرنا انکا کوئی مقصد ہے ۔ ہم بات کررہے تھے کہ کورونا اور ین پی آر کی ۔ دونوں ہی باتیں ایک طرح سے فناکرنے والی ہیں ۔ کورونا انسانوں کی زندگیوں کو بیماری کے ذریعے سے ختم کررہا ہے تو ین پی آر بھارت کے شہریوں کو ، دستور کو ، آئین کو اور جمہوری نظام کو تباہ کرنے کے لئے پنپنے لگا ہے ۔ جس وقت میںہمارے اہل علم طبقے کو کمر بستہ ہوکر دونوں چیزوں سے لڑنے کے لئے میدان میں اتر نا چاہئے تھا اس موقع پر وہ سوشیل میڈیا پر وظیفے ، تسبیحات اور اعمال بھیج رہے ہیں جنہیں عمل کرنے اور دوسروں کو شیئر کرنے کی ہدایت کے ساتھ پیش کیا جارہاہے ۔ ین پی آر کو ملک میں رائج کرنے کی تمام تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں لیکن اب بھی ہمارے دانشوروں اور اہل علم والوں کا طبقہ تبادلہ خیال کرنے ، سوچنے اور اپنے سے بڑوں کے فیصلوں کا منتظر دکھائی دے رہاہے جس سے اتنی تو امید کی جائیگی کہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کو صبر سے کام لینے کا اہم مشورہ ضروردینگے ۔ اگر دعائوں سے ہی طوفان سے لڑا جاسکتاتھا تو نوح ؑ پیغمبر ہونے کے باوجود کشتی کیوں بناتے ۔ دعائوں سے ہی غزوہ فتح کرسکتے تھے تو نبی کریم حضرت محمدمصطفیٰ رسول عربی ﷺ خود غزوہ احد اورعزوہ خندق میں تشریف کیوں لے جاتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم علم کے ساتھ عمل اور قول کے ساتھ فعل کے بھی عادی بنیں تو ہماری کامیابی ہے ورنہ کافروں و مشرکوں کے سامنے مزید رسواء ہوتے رہیں گے اور کہیں گے کہ اسلام امن کا مذہب ہے ۔