کاروار 2 ڈسمبر (ایس اؤ نیوز) ریاستی حکومت کاروار کے سداشیوگڑھ قلعےمیں شیواجی مہاراج کامجسمہ ، تفریحی باغ اور میوزیم کے قیام کا منصوبہ رکھتی ہے، حکومت کے منصوبے کی ہرکوئی ستائش کررہے ہیں لیکن متعلقہ قلعے کی تعمیر میں کنڑیگا سوندا مقام کے راجہ بسولنگ راج اور ان کے والد سداشیو لنگ راج کو نظر انداز کئے جانے پر عوام سخت اعتراض کررہے ہیں۔ جس کے ساتھ ہی شیواجی پارک کی تعمیر کا مجوزہ منصوبہ تنازعہ کا شکار ہوگیا ہے۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ تصویرمیں نظر آرہے سدا شیوگڑھ قلعہ کو 21 فروری 1665اور 1673میں شیواجی نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔ اس کے سوا قلعے کو اور شیواجی کو کوئی تعلق نہیں ہے۔
لیکن یہاں محکمہ سیاحت شیواجی مہاراج کا مجسمہ ، تفریحی باغ اور میوزیم کی تعمیر کا منصوبے بنارہی ہے جس کو دیکھتے ہوئے یہی ظاہر ہوتاہے کہ متعلقہ قلعہ کو شیواجی مہاراج نے ہی تعمیر کیا ہو۔
مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ہم کبھی شیواجی مہاراج کے مجسمہ کی نصب کاری کے مخالف نہیں ہیں، لیکن محکمہ سیاحت کی جانب سے سوندا کے راجہ کو نظر انداز کئے جانے اور صرف ایک ہی مجسمہ کو نصب کرنے کی کوشش سے ہمارے جیسے کئی لوگوں کو اعتراض ہے۔ بات واضح ہے کہ قلعہ سداشیورائے قلعہ کےنام سے موسوم ہے اور اس سے متصل چتاکول دیہات کو سداشیو گڑھ کہاجاتاہے۔
1698میں مراٹھوں نے سوندا مقام پر حملہ کیا تھا، چونکہ علاقے میں انگریزوں کا دبدبہ تھا ،انگریز سوندا راجہ کے خلاف تھے، کاروار بندرگاہ سے انگریزوں نے اپنی تجارت شروع کی ، علاقےمیں ان کے کارخانےتھے، ان حالات میں مراٹھوں کے حملے میں انگریزوں کا بھی رول ہونےکا شبہ جتاتے ہوئے کاروارپر حملے کی تیار ی میں تھا عین اسی دوران میں مراٹھوں نے دوبارہ حملہ کیا تو اپنی حفاظت کے لئے سداشیورائے نے قلعہ کی تعمیر شروع کی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا بسولنگ راج نے قلعہ کی تعمیر مکمل کی۔ اب حکومت کی طرف سے تعمیر کئےجارہے پارک میں سب کچھ شیواجی کے نام سے ہورہاہے۔ جب کہ حقائق کچھ اور کہتے ہیں۔
1665میں شیواجی بیندور پر حملہ کیا تھا وہاں سے لوٹنے کے دوران اس کی فوج نے گوکرن پہنچ کر انکولہ پر حملہ کرتے ہوئے اسے اپنی تحویل میں لیا۔ دوسرے ہی دن کڈواڑ پر حملہ کیا تو بیجاپور کے سردار شیر شاہ اور ایسٹ انڈیا کی کمپنیوں نے شیواجی مہاراج کو معاوضہ ادا کیا۔ اس کے بعد اگلے دن شیواجی مہاراج کالی ندی پارکرکے سداشیوگڑھ کو اپنی تحویل میں لئے جانےکی تفصیلات تاریخ میں موجود ہے۔ اس کے بعد قلعہ کچھ عرصے تک پرتگیز کی تحویل میں رہا، پھر انگریزوں نے حملہ کرتےہوئے قلعہ کو برباد کردیا۔
شیواجی مہاراج نے متعلقہ قلعہ کا صرف دومرتبہ دورہ کیا وہ بھی بہت ہی تھوڑی مدت کے لئے ۔ اس کے باوجود حکومت قلعہ کی تعمیر کرنے والے سوندا کے راجہ کا مجسمہ کو نصب کرنے کے بجائے اور سوندا کے راجہ کی تاریخ کو عوام کے سامنے ظاہر کرنے کے بجائے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کررہی ہے، عوام کا کہنا ہے کہ یہاں سوندا راجہ کے نام سے قلعہ کو موسوم کیا جائے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ مقامی لوگوں کی اکثریت کہتی ہے کہ صرف ووٹ بینک سیاست کے لئے اصل معمار کو نظر انداز کرکے کسی اور کے نام سے قلعہ کو موسوم کرنا عدم اطمینان پیدا کرتاہے۔ وہاں جو چاہے کریں مگر اسی پارک میں سوندا کے راجہ کی تاریخی تفصیلات بھی درج ہونی چاہئے اور سداشیولنگ راج کا بھی ایک مجسمہ نصب کرنا چاہئے۔
صرف شیواجی نہیں : سداشیو گڑھ قلعہ کی جنگی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتاہے کہ اس کے لئے کئی جنگیں ہوئیں ہیں۔ یہاں صرف شیواجی مہاراج نے ہی جنگ نہیں کیا ، بلکہ حیدر علی ، ٹیپو سلطان اور کئی انگریز ،پرتگیز جنرلس نے بھی جنگیں لڑی ہیں لیکن حکومت ووٹ بینک کی سیاست کے لئے سوندا کے راجہ کو نظرانداز کرکے قلعہ کی تعمیر شیواجی کے نام موسوم کررہی ہے۔
اصلی انگریز اور جدید انگریز :مراٹھوں اور پرتگیزوں کے حملوں سے اپنی حکومت کی حفاظت کے لئے سوندا کے راجاؤں نے کالی ندی علاقےمیں سداشیو گڑھ قلعہ کی تعمیر کی۔ اگر یہ قلعہ نہ ہوتا تو اسی وقت کاروار گوا کے پرتگیزوں کے قبضے میں چلاجاتا۔ اس معاملے میں کنڑیگاس کو سوندا کے راجاؤں کا احسان مند ہونا چاہئے۔ 1783میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے جنرل میاتھیو نے قلعہ پر حملہ کرتے ہوئے قلعہ کو برباد کردیا۔ لیکن 80 کے دہے میں قومی شاہراہ کی تعمیر کے موقع پر ایک سیاست دان کی زمین بچانے کے لئے سداشیو گڑھ قلعہ کے پہاڑ کو تقسیم کرتےہوئے شاہراہ بنائی گئی ہے۔
سواریاں جب ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سے گزرتیں تھین تو بہت خوبصورت منظر نظر آتا تھا۔ لیکن گذشتہ تین برسوں میں قومی شاہراہ 66کو فورلین میں منتقل کرنے کےدوران مغربی علاقے کے پہاڑ کو مکمل ڈھا دیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وہاں ایک سیاست دان کی زمین کو بچانے کےلئے پہاڑ کو ڈھایا گیا ہے۔ اس طرح 1783میں جس طرح انگریزوں نے قلعہ کو برباد کیا تھا اسی طرح 250 برسوں بعد اب جدید انگریزوں نے یعنی موجودہ برسراقتدار والوں نے قلعہ کو برباد کرنےکی بات کہیں تو غلط نہ ہوگا۔