کانگریس اور مذہب و ذات کی سیاست از:حفیظ نعمانی

Source: S.O. News Service | By Shahid Mukhtesar | Published on 26th December 2016, 3:08 PM | مہمان اداریہ |

سید فیصل علی سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں۔ انھوں نے کانگریس کے ایک لیڈر غلام نبی آزاد سے اترپردیش میں کانگریس کی پالیسی کے بارے میں کھل کر گفتگو کی۔ فیصل صاحب نے معلوم کیا کہ ۲۰۱۲ء کے الیکشن میں کانگریس کو صرف ۲۸ سیٹیں ملیں جو اب تک کی سب سے کم سیٹیں تھیں۔ جواب دیتے ہوئے آزاد صاحب نے کہا کہ میرے نزدیک اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً آزادی سے پہلے ملک میں ذات اور مذہب کی تفریق نہیں تھی لیکن اب صرف یو پی میں ہی نہیں پورے ملک میں ذات اور مذہب کی بنیاد پر لوگ تقسیم ہوچکے ہیں۔ کانگریس پارٹی نے کبھی بھی ذات اور مذہب کی سیاست نہیں کی۔ اس کا مقصد ملک کو آزاد کرانا اور اس کے بعد ہندوستان کی تعمیر کرنا تھا۔

غلام نبی آزاد صاحب کے بارے میں ہم یہ تو نہیں بتا سکتے کہ وہ کانگریس میں کب آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ جموں کشمیر کے رہنے والے ہیں اور کشمیر کی حیثیت ملک کے عام صوبوں جیسی نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ وہ ملک کی آزادی کے کافی دنوں کے بعد ملک کی سیاست میں آئے اور اب وہ قیادت کی اس صف میں ہیں جو ماں بیٹے اور بیٹی کے بعد پہلی صف کہی جاتی ہے۔ لیکن آج بھی صورت حال یہ ہے کہ انہیںیوپی کے الیکشن کا انچارج بنا کر بھیجا گیا ہے اور راج ببر کو اترپردیش کانگریس کا صدر بنا کر بھیجا گیا ہے۔ یعنی کانگریس کے الیکشن اور پارٹی کے ذمہ دار یہی دونوں ہیں اور یہ دونوں ایسے کسی اتحاد سے صاف انکار کررہے ہیں جس کی گفتگو مسٹر پی کے ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو کرچکے ہیں اور بتا چکے ہیں کہ راہل گاندھی کے اشارہ پر یہ گفتگو ہورہی ہے۔

غلام نبی آزاد نے صاف صاف کہا ہے کہ کانگریس نے کبھی بھی ذات اور مذ ہب کی سیاست نہیں کی۔ ہم اگر یہ کہیں کہ ہم ان سے پہلے سے کانگریس کو دیکھ رہے ہیں اور اس سے وابستہ بھی رہے ہیں۔ اور ہم دعوے کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ صرف پنڈت نہرو کے زمانہ تک کانگریس نے ذات اور مذہب کی سیاست نہیں کی اس کے بعد ان کی بیٹی اور نواسوں نے صرف ذات اور مذہب کی سیاست کی اور آج بھی دہلی کی شکست خوردہ اور کامن ویلتھ کھیل کرانے میں ہر قسم کی بدعنوانی اور بے ایمانی کے الزامات میں ڈوبی ہوئی شیلا دکشت کو صرف اس لیے یوپی کا وزیر اعلیٰ بنانے کی تجویز سامنے لائی گئی کہ وہ برہمن ہیں اور اترپردیش کے برہمنوں کی طرح گروہ بند نہیں ہیں۔

مسلمانوں نے کانگریس کو جو دیا اس کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ لیکن پنڈت نہرو کے دونوں نواسوں نے جیسی مذہب کی سیاست کی ہے اس کی وجہ سے ہی مسلمانوں کو کانگریس سے نفرت ہوگئی۔ سنجے گاندھی نے جو کیا وہ کون بھول سکتا ہے اور راجیو گاندھی کا بابری مسجد کا تالا کھلوانا اور اس پر احتجاج کی سزا میرٹھ کو اس طرح دلوانا کہ آج تک میرٹھ کی کمر سیدھی نہیں ہوئی اور راجیو گاندھی کا ان کے ساتھ دشمنی جیسا رویہ رکھنا ایسا ہے کہ اس کے بعد کوئی بھی کانگریسی مسلمان اگر صفائی دے تو ا یسا محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وہ معصوم ہے یا مجبور ہے۔

غلام نبی آزاد نے یہ اعتراف تو کیا کہ مسلمانوں کے کانگریس سے دورہونے کے کئی اسباب ہیں ان میں بابری مسجد بھی ایک سبب ہے۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ 1948میں اس میں مورتیاں رکھوا کر تالا ڈلوایا۔ یہ کام پنت نے کیا اور نہرو جی نے وہ نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا۔ پھر راجیو گاندھی نے تالا کھلوایا اور نماز کی نہیں پوجا پاٹ کی اجازت دلائی اور نرسمہا راؤ نے اسے شہید کرادیا اور وہ اس کے بعد بھی وزیر اعظم بنے رہے۔ اسے یہ کہنا کہ بابری مسجد بھی ایک سبب ہے جبکہ سبب یہ ہے کہ پنڈت نہرو نے بار بار کہا کہ میں کسی مذہب کو نہیں مانتا۔ ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے بیٹی کو ایک پارسی سے شادی کرنے کی اجازت دی اور بیٹی نے بیٹے کو عیسائی سے شادی کرنے کی اجازت دی لیکن ہندو ووٹوں کے لیے سب ہندو بن کر کھڑے ہوگئے۔ 

پنڈت جی نے مولانا آزاد سے جو تعلق رکھا اور بزرگ علماء کا جیسا احترام کیا یہ سب کو معلوم ہے۔رمضان شریف میں مسلم ملکوں کے سفیروں اور اپنے مسلم وزیروں کو روزہ افطار کرانا ان کی ہی روایت ہے۔ لیکن پہلے اندرا جی مسلمانوں سے دور ہوئیں اس کے بعد ان کے بیٹے اتنے دور ہوئے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ابتدائی دو ر میں ایک ملاقات میں مولانا علی میاں اور مولانا منت اللہ نے وزیر اعظم راجیو گاندھی سے کہا کہ اب ہمارے لیے آنے میں پریشانی ہوگی۔ گرمیاں بھی سخت ہیں اور رمضان شروع ہونے والے ہیں۔ اس کے جواب میں بھولے راجیو گاندھی نے کہا کہ آپ رمضان سردیوں میں کیوں نہیں کرلیتے ؟ گرمی کا موسم تو بہت سخت ہوتا ہے؟ یہ اس کے نواسے تھے جس نے افطار کو سرکاری تقریب بنایا اور راہل گاندھی کو جب ایک نایاب تصویر پنڈت جی اور مولانا آزاد کی دکھائی تو سنا ہے کہ انھوں نے مولانا کی تصویر پر انگلی رکھ کر کہا کہ یہ کون ہیں؟

اس کے بعد غلام نبی آزاد کا یہ کہنا کہ کانگریس نے کبھی ذات اور مذہب کی سیاست نہیں کی اور اس پر رونا کہ آج کل جو کتابیں بچوں کو پڑھائی جارہی ہیں ان میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ ملک کو آزاد کرانے کے لیے کس نے جان دی کس نے قربانی دی اور کون جیل میں برسوں پڑا رہا۔ کیا یہ اس احسان فراموشی کا جواب نہیں ہے جو مسلمانوں نے آرادی کے لیے قربانی دی جو مالٹا کی جیل میں شیخ الہند پر ا ور ان کے ساتھ ان کے ساتھیوں پر گذری۔ یا جو مولانا حسرت موہانی نے قربانیاں دیں یا جو علماء کالے پانی، جزائر انڈمان نیکوبار بھیجے گئے اور وہیں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آزاد صاحب کا مسلمانوں کے بارے میں یہ کہنا کہ انھوں نے باضابطہ طور پر کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی وہ کبھی ایس پی کے ساتھ گیا کبھی بی ایس پی کے ساتھ اور کبھی اپنی پارٹیاں بنا لیں۔ یہ صرف انھوں نے اس لیے کیا کہ کانگریس نے انہیں اپنا غلام یا بندھوا مزدور سمجھا اور صرف ان سے ووٹ لے لیے۔ اس کے بعد جو ایس پی یا بی ایس پی کے ساتھ گئے وہ ان کو جتانے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے گئے کہ وہ کانگریس اور بی جے پی کو ہرانا چاہتے تھے اور آج بھی صورت حال یہی ہے کہ مسلمانوں کو غلام نبی آزاد کے انچارج بننے سے بھی کانگریس سے دلچسپی نہیں ہے۔

بہار میں مسلمانوں نے کانگریس کو ووٹ نہیں دیا بلکہ لالو اور نتیش کے محاذ کو کامیاب کرانے اور بی جے پی کو ہرانے کے لیے دیا اور اگر تمام اخباروں نے اور سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ سہارا نے جو چھاپا ہے کہ یوپی میں اتحاد کا اعلان جلد ہوجائے گا۔ تو اس وقت بھی مسلمان کانگریس کو نہیں بلکہ اس محاذ کو ووٹ دیں گے جو امت شاہ کی ۲۰۱۴ء کی قابلیت پر کالک پوتنے کے لیے بے چین ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ امت شا ہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے نئے نوٹوں کی بوچھار کررہے ہیں۔

ایک نظر اس پر بھی

کارپوریٹ گھرانوں اور ہندوتوا کا ’سازشی گٹھ جوڑ‘، مودی حکومت میں ’کھیل‘ کے سبھی اصول منہدم!

فاشسٹ عناصر ہمارے جدید سماج میں رہتے ہیں، لیکن عموماً وہ بہت ہی چھوٹے طبقہ کے طور پر حاشیے پر پڑے رہتے ہیں۔ وہ مین اسٹریم میں تبھی آ پاتے ہیں جب انھیں اجارہ داری والی پونجی کی مدد ملے کیونکہ اسی سے ان عناصر کو اچھا خاصہ پیسہ اور میڈیا کوریج مل پاتا ہے۔ یہ مدد کب ملتی ہے؟ تب، جب ...

مسلم تھنک ٹینک: قوم مسلم کی ایک اہم ترین ضرورت ۔۔۔ از: سیف الرحمن

آج جب کہ پوری دنیا و اقوام عالم ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں اور پوری دنیا میں آگے بڑھنے کی مقابلہ آرائی جاری ہے جِس میں ہمارا مُلک ہندوستان بھی شامل ہے ، تو وہیں ملک کر اندر بھی موجود الگ الگ طبقات میں یہ دوڑ دیکھنے کو مل رہی ہے

عالمی کپ فٹبال میں ارجنٹینا کی شاندار جیت پر ہندی روزنامہ ہندوستان کا اداریہ

کھیلوں کے ایک سب سے مہنگے مقابلے کا اختتام ارجینٹینا  کی جیت کے ساتھ ہونا بہت خوش آئندہ اور باعث تحریک ہے۔ عام طور پر فٹبال کے میدان میں یوروپی ملکوں کا دبدبہ دیکھا گیا ہے لیکن بیس برس بعد ایک جنوبی امریکی ملک کی جیت حقیقت میں فٹبال کی جیت ہے۔

ہر معاملے میں دوہرا معیار ملک کے لیے خطرناک ۔۔۔۔ منصف (حیدرآباد) کا اداریہ

سپریم کورٹ کے حالیہ متنازعہ فیصلے کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ۔ مرکزی ایجنسی نے منی لانڈرنگ کیس میں ینگ انڈیا کے  دفاتر کو مہر بند کردیا۔  دہلی  پولیس نے کانگریس کے ہیڈ کوارٹرس کو عملاً  پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ راہول اور ...

نوپور تنازع: آخر مسلمان جوابی غلطیاں کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔۔تحریر:قمر وحید نقوی

دو ہفتے بعد نوپور شرما کے تبصرے کے تنازع پر ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے نے جس غصے کا اظہار کیا ہے وہ بالکل مضحکہ خیز اور سیاسی حماقت کا ثبوت ہے۔ اتنے دنوں بعد ان کا غصہ کیوں بھڑکا؟ کیا ان کے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہے؟

تقسیم کی  کوششوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی و خیرسگالی پر زوردینا ضروری : ملک کے موجودہ حالات پر کنڑا روزنامہ ’پرجاوانی ‘ کا اداریہ

ملک کے مختلف مقامات پر عبادت گاہوں کے متعلق جو  تنازعات پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں و ہ دراصل سماجی اور سیاسی تقسیم کا مقصد رکھتی ہیں۔ ایسی کوششوں کے پیچھے معاشرے میں ہنگامہ خیزی پیدا کرنے کامقصدکارفرما ہےتو ملک کے سکیولرنظام کو کمزور کرنے کا مقصد بھی اس میں شامل ہے۔