ریاست میں مخلوط حکومت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے کوششوں کا آغاز
بنگلورو،24اپریل(ایس او نیوز) ریاست میں لوک سبھا انتخابات کی تکمیل کے فوری بعد ایک بار پھر مخلوط حکومت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے آپریشن کمل کی کوششیں تیز ہوتی نظر آرہی ہیں۔ سابق وزیر رمیش جارکی ہولی اپنے حامی اراکین اسمبلی کے ساتھ کانگریس سے مستعفی ہونے کا اعلان کرچکے ہیں جس سے مخلوط حکومت کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس سے پہلے ہی بی جے پی نے آپریشن کمل کرتے ہوئے چنچولی کے کانگریس رکن اسمبلی ڈاکٹر امیش جادھو کا شکار کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی جنہیں گلبرگہ لوک سبھا حلقے سے بی جے پی امیدوار بنایا گیا تھا جس کے بعد دوبارہ آپریشن کمل کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ اس سے قبل بھی دو مرتبہ تشکیل حکومت کی کوششیں ناکام ثابت ہوئی تھیں۔ اب لوک سبھا انتخابات کے بعد دوبارہ بی جے پی کے ذریعہ تشکیل حکومت کے ذریعہ خفیہ سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ وزارت سے محروم رمیش جارکی ہولی نے اپنے حامیوں کے ساتھ مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ بلاری رورل کے رکن اسمبلی بی ناگیندرا، اتھنی کے مہیش کمٹلی، ہریکیرور کے رکن اسمبلی بی سی پاٹل کے علاوہ بیھماناؤک اور جے این گنیش سمیت دیگر اراکین اسمبلی مستعفی ہونے کی تیاری میں بتائے گئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی بی جے پی کے ریاستی صدر کے علاوہ کئی لیڈروں نے بار بار پیشن گوئی کی تھی کہ لوک سبھا انتخابات کے بعد کسی بھی وقت کانگریس جے ڈی ایس مخلوط حکومت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اب رمیش جارکی ہولی کے رویے سے بی جے پی کی پیشن گوئی سچ ثابت ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ مذکورہ اراکین میں سے اکثر نے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس امیدواروں کی حمایت کے بجائے بی جے پی امیدواروں کی تائید بھی کی تھی۔ حال ہی میں ریاستی وزیر ستیش جارکی ہولی نے جو بیان دیا تھا اس سے ان کے بھائی رمیش جارکی ہولی کی برہمی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مخلوط حکومت کو گرانے کی تیاریوں سے متعلق چند دن قبل ہی ہبلی میں رمیش جارکی ہولی نے بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ سے بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ 1999 سے رمیش جارکی ہولی گوکاک اسمبلی حلقے کی نمائندگی کرتے آرہے ہیں۔ اسمبلی میں چنچولی کے رکن اسمبلی امیش جادھو کے استعفی کے علاوہ ریاستی وزیر سی ایس شیولی کی ناگہانی موت کے بعد مخلوط حکومت کی اراکین کی تعداد 118 سے 116 ہوگئی ہے۔ اسی طرح اراکین اسمبلی ایشورکھنڈرے اور کرشنا بائیرے گوڈا لوک سبھا انتخابات کے امیدوار بنے تھے اگر دونوں کامیاب ہوگئے تو ان اراکین کی تعداد 114 پر پہنچ جائے گی۔ اسی طرح رمیش جارکی ہولی کے ساتھ اگر 4 اراکین اسمبلی بھی مستعفی ہوجائیں تو 224 رکنی ریاستی اسمبلی میں مخلوط حکومت 110 اراکین تک محدود ہوجائے گی۔ جس کے ساتھ ہی وہ اکثریت سے بھی محروم ہو سکتی ہے اس مرحلے میں گورنر اسمبلی کو معطل رکھ سکتے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق بی جے پی فی الحال متبادل حکومت تشکیل کرنے کے حق میں نہیں ہے بلکہ 23مئی کو لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد اس خصوص میں حکمت عملی تیار ہوسکتی ہے۔ اگر متبادل حکومت کی تشکیل ممکن نہیں ہوئی تو اکتوبر میں مہاراشٹرا اور ہریانہ کے ساتھ کرناٹک میں ریاستی اسمبلی کے وسط مدتی انتخابات بھی ہوسکتے ہیں۔ مخلوط حکومت کی تشکیل کے تین ماہ بعد سے ہی حلیف جماعتوں کے اراکین میں اختلافات پھوٹ پڑے تھے۔ بلگاوی سے شروع ہونے والی برہمی نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ مخلوط حکومت کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
حمایت واپس لینے کی دھمکی؟ لوک سبھا انتخابات میں انتخابی مفاہمت کے باوجود کئی حلقوں میں کانگریس اور جے ڈی ایس کارکنوں میں تال میل کے فقدان کے سبب حلیف جماعتوں میں اختلافات جنم لینے لگے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ میسورکورگ لوک سبھا حلقے میں کانگریس امیدوار سی ہیچ وجئے شنکر کی شکست ہوئی تو کانگریس پارٹی مخلوط حکومت سے حمایت واپس لے سکتی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق اس خصوص میں سابق وزیر اعلیٰ سدرامیا نے وزیر اعلیٰ کمارسوامی کو دھمکی بھی دی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران دیوے گوڈا کی موجودگی میں سدرامیا نے یہ دھمکی دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کانگریس کی کامیابی کیلئے جو کچھ بھی ہو کریں ورنہ23 مئی کے بعد مخلوط حکومت سے کانگریس حمایت واپس لینے پر غور کرے گی۔ سدرامیا نے میسور حلقے کو اپنے وقار کا مسئلہ بنا لیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اپنے آبائی ضلع میں کانگریس امیدوار ہر حال میں کامیاب ہو۔ میسور میں جے ڈی ایس وزراء جی ٹی دیوے گوڈا اور سارا مہیش کے رویے سے بھی سدرامیا ناراض ہیں۔