چیف جسٹس آف انڈیا پرجنسی ہراسانی کا الزام سماعت کے لئے بنچ مقرر۔ الزامات بے بنیاد من گھڑت ہیں۔ عدلیہ خطرہ میں: سی جے آئی
نئی دہلی،21؍اپریل(پی ٹی آئی؍ایس او نیوز) ہندوستان کہاں جارہاہے؟ دلدل کی طرف یا پھر عروج کی اپنی آخری منزل کی طرف۔ موجودہ وقت میں یہ ایسے سوالات ہیں جو ہر ہندوستانی شہری کے ذہن پر کچو کے لگارہے ہیں۔ اقتدار پر بر قرار رہنے کے لئے وزارت عظمیٰ کے تقدس اور اس کے احترام کا بھی خیال نہیں کیاجاتا۔دوسری طرف سب سے بڑا انصاف کا گھر یعنی عدالت عظمیٰ کے سربراہ پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا( سی جے آئی) کے خلاف سپریم کورٹ کی ایک سابق ملازمہ کے ذریعہ لگائے جنسی ہراسانی کے الزامات پر سپریم کورٹ میں ہفتہ کو خصوصی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس ارون مشرا اور جسٹس سنجیو کھنہ کی ایک بنچ نے کہا کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے، اس لئے اس کی سماعت دوسری بنچ کرے گی۔ حالانکہ چیف جسٹس رنجن گگوئی نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد بتاتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کی آزادی بھی خطرے میں ہے۔ عدالت عظمیٰ نے آج اپنے طورپر بعض ذرائع ابلاغ کی رپورٹ پر غور کیا جن میں کہاگیاہے کہ ایک خاتون( سی جے آئی کی سابق اسسٹنٹ) نے چیف جسٹس پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایاہے ۔ بنچ نے کہا ہے کہ یہ ایک سنگین اور زبردست عوامی اہمیت کا معاملہ ہے اس لئے میڈیا عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لئے احتیاط سے کام لے۔سپریم کورٹ کی سابق ملازمہ نے الزام لگایاہے کہ64سالہ چیف جسٹس رنجن گگوئی نے گزشتہ سال 10اور11اکتوبر کو اپنے گھر پر جنسی طورپرانہیں ہراساں کیاتھا۔ سپریم کورٹ کی سابق ملازمہ نے ایک حلف نامہ کے ذریعہ22ججوں سے رجوع کیاہے کہ اور کورلیٹر کے ساتھ شکایتی درخواست بھی ارسال کی ہے۔الزام لگانے والی ملازمہ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ چیف جسٹس نے ان کے گھروالوں کو منہ بند رکھنے کی دھمکی بھی دی تھی لیکن دباؤ میں نہ آنے پر انہیں جبراً ملازمت سے نکال دیاگیا۔ اپنے اوپر لگے الزامات کی تردید کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ مذکورہ خاتون مجرمانہ ریکارڈ رکھتی ہیں اور حال ہی میں چار روز جیل میں رہ چکی ہیں۔ پولیس نے انہیں اپنے کردار کی درستگی کی ہدایت بھی کی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ میرے اوپر لگے الزامات کے پیچھے بڑی طاقت ہوگی جو چیف جسٹس کے کام میں مداخلت چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ ہفتہ بہت اہم معاملوں کی سماعت کرنے والے ہیں اور انہیں ان معاملوں کی سماعت سے روکنے کی کوشش ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آزاد عدلیہ کو ختم کرنے کے لئے بڑی سازش رچی جارہی ہے۔ میں اس کرسی پر بیٹھوں گا اور بغیر کسی خوف کے عدلیہ سے جڑے اپنے معاملوں کو پورا کرتارہوں گا۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس آئندہ ہفتہ راہل گاندھی کے خلاف شہریت پر داخل کی گئی عرضی، وزیراعظم مودی کی بائیوپک کی ریلیز کے ساتھ ساتھ تملناڈومیں ووٹروں کو مبینہ طورپر رشوت دینے کی وجہ سے وہاں انتخابات ملتوی کرنے کے مطالبہ والی درخواستوں پر سماعت کرنے والے ہیں۔ حالانکہ تملناڈو میں ویلور کو چھوڑکر تمام نشستوں پر پولنگ ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے اوپر لگے الزامات کو بے بنیاد بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ ان الزامات کی تردید کے لئے اتنا نیچے اترناچاہئے۔ الزامات سے دلبرداشتہ چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں عدالتوں میں20سال کی خدمات کا یہ انعام ملا ہے۔ عدالتوں میں 20 سال کی خدمات کے بعد ان کے بینک اکاؤنٹ میں محض6.8لاکھ روپئے ہیں اور پی ایف میں40لاکھ روپئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف جب کچھ نہیں ملا تو الزامات لگانے کے لئے ایک خاتون کو کھڑا کیاہے۔ انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں ایک بار پھر کہا کہ وہ کوئی ہدایت نامہ یا حکم جاری نہیں کررہے ہیں لیکن عدلیہ کی آزادی کا احترام کرتے ہوئے میڈیا احتیاط سے کام لے۔ اس درمیان جسٹس ارون مشرا نے کہا کہ عدلیہ پر اب بھی لوگوں کا مکمل اور صدفیصد اعتماد بحال ہے اور وہ چاہیں گے کہ آئندہ بھی عدلیہ پر اسی طرح اعتماد برقرار ہے اس کے لئے وہ ہر طرح کا مستحکم قدم اٹھانے کے لئے تیارہیں۔ لیکن دوسری طرف بار کونسل آف انڈیا نے چیف جسٹس آف انڈیا پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد اور من گھڑت بتاتے ہوئے کہا ہے کہ پورا بار اسوسی ایشن چیف جسٹس کے ساتھ ہے اور عدلیہ کی آزادی کو ختم کرنے کی کوشش کے خلاف وہ کھڑا ہے۔ وہیں سپریم کورٹ بار ارسوسی ایشن کے سابق صدر اور سینئر وکیل وکاس سنگھ نے خاتون کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی آزادانہ جانچ کا مطالبہ کیاہے۔ انہوں نے کہاہے کہ اگر یہ الزامات جھوٹے ہیں تو یقینی طورپر عدلیہ کی آزادی کے لئے خطرہ ہے لیکن اگر الزامات صحیح ہیں تو یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔