شہریت ترمیمی بل کے خلاف بنگلورو میں کرناٹکامسلم متحدہ محاذ کے زیر اہتمام ملّی و سماجی تنظیموں کا زبردست احتجاجی مظاہرہ
بنگلورو11/دسمبر (ایس او نیوز)سماج کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے والے مرکزی حکومت کے شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) کے خلاف بنگلورو میں کرناٹکا متحدہ محاذ کے زیر اہتمام دوپہر 12بجے ٹاؤن ہال کے پاس ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
اس احتجاجی مظاہرے میں کومو سوہاردا ویدیکے، سوودانا اولویگاگی کرناٹکا چاپٹر، جمعیت علمائے ہند کرناٹکا، جماعت اسلامی ہند کرناٹکا، لجنتہ العلماء کرناٹکا، سُنّی جمعیت علماء کرناٹکا، سُنّی علماء بورڈ کرناٹکا، جمعیت اہلحدیث کرناٹکا،اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کرناٹکا،ایسو سی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کرناٹکا،ویلفیئر پارٹی آف انڈیا، پاپولر فرنٹ آف انڈیا، سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا،فریٹرنٹی یوتھ موومنٹ کرناٹکا چاپٹر، جماعت مہدویہ کرناٹکا،صدائے اتحاد کرناٹکا، انجمن امامیہ کرناٹکا،مساجد کاونسل کرناٹکا، آل انڈیا پیوپلس فرنٹ،انجمن امامیہ کرناٹکا،، ایف ڈی سی اے، مومنٹ فار جسٹس، فیڈریشن آف مساجد کاونسل، جمعیت القریش بیف مرچنٹس ایسو سی ایشن کرناٹکا،انجمن خدام المسلمین، انجمن اصلاح معاشرہ کرناٹکا،، الایمان ایجوکیشن اینڈ چیریٹیبل ٹرسٹ بنگلورو، ملبار مسلم ایسو سی ایشن بنگلوروبیاریس ایسو سی ایشن، الماس ایجوکیشن ٹرسٹ بنگلورو وغیرہ کے ذمہ داران اور اراکین نے شرکت کی۔
اس موقع پر ڈسٹرکٹ کمشنر کو ایک میمورنڈم دیاگیاجس میں شہریت ترمیمی بل 2019کے ذریعے شہریوں کے استحصال کی مذمت کی گئی۔ میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ یہ بل لوک سبھا میں پاس ہوچکاہے اور جلدہی راجیہ سبھا میں پاس ہوکر قانون بننے جارہا ہے۔لیکن ملک اور سماج پراس بل کے بڑے دور رس اور سنگین اثرات مرتب ہونے والے ہیں جو ہمارے منتخب عوامی قائدین کے تصور سے بھی پرے ہیں۔ملک کی پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا بل ہے، سماج کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے والا ہے۔اس کے برے اور منفی اثرات کے بارے میں زندگی کے تما شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے اسکالرس، نمائندہ شخصیات اور جانکاروں کی طرف سے بحث و مباحثے اورسخت ترین مخالفت کے باوجوداس بل کو نہ روک سکنے والے راستے پر ڈال دیا گیا ہے،جس کی وجہ سے شہریوں کو حاصل تمام تر دستوری حقوق اور مراعات کے برخلاف سے اس کا قانون بن جانا یقینی ہوگیا ہے۔
میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ تقسیم ہند کے وقت جہاں پاکستان کا قیام اسلامی مملکت کے طور پر عمل میں آیا وہیں پر ہندوستان میں ڈاکٹر امبیڈکر اور جواہر لال نہرو جیسے باشعور اور دور اندیش لیڈروں نے اس ملک کو ہندوازم کی مذہبی بنیاد پر تشکیل دینے سے یکسر انکار کردیا تھا۔لہٰذا ملک کی سیاست سے مذہب کو الگ رکھتے ہوئے تمام مذاہب کو یکساں درجہ دیا گیا۔مگر یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ موجودہ منتخب حکومت کے تحت ملک کے اس بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا جارہا ہے۔ دستور رنگ و نسل اور مذہب اور طبقات کی بنیاد پر شہریوں میں امتیاز کرنے کو ممنوع قرار دیتا ہے، اس کے باوجود آج شہریت ترمیمی بل پیش کردیاگیا ہے جس کے ذریعے پاکستان، افغانستان اوربنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آنے والے ہندوؤں، سکھوں، جین، بدھسٹ، پارسی اور عیسائیوں کو اس ملک کی شہریت دی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ان ممالک سے بڑی تعداد میں غیر قانونی طورپرہجرت کرنے والوں کا تانتا لگ جائے گا۔خاص کرکے ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستیں بہت زیادہ متاثر ہونگی اور اسی اندیشے کی وجہ سے بجا طور پر وہاں کی مقامی آبادی کھل کر اس بل کی مخالفت پر اتر آئی ہے۔
میمورنڈم میں بتایا گیا ہے کہ شہریت ترمیمی بل میں دیگر مذاہب کے ساتھ مسلمانو ں کو نہ جوڑنا اور شہریت حاصل کرنے کے حق سے انہیں باہر رکھنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ بل مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور ان پر جبر وستم کا بازار گرم کرنے کے مقصد سے ہی لایا گیا ہے۔تاکہ انہیں ملک سے باہر بھگایا جائے اور کسی بھی ملک کی شہریت نہ رکھنے والوں (اسٹیٹ لیس)کے زمرے میں انہیں ڈال دیا جائے۔
میمورنڈم میں مزید واضح کیاگیا ہے یہ سی اے بی تین اہم نکات کے تحت ایک امتیازی سلوک کرنے والا قانون ہے۔ (الف) اس میں صرف پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے مہاجرین کو شامل کیاگیا ہے جبکہ میانمار، سری لنکا، نیپال جیسے پڑوسی ممالک کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ (ب) اس قانون کا اطلاق صرف ان مہاجرین پر ہوگا جو 31دسمبر 2014س پہلے اس ملک میں داخل ہوئے ہیں۔ (ج) اس میں مسلمانوں کو چھوڑ کر باقی تمام ہندوستانی مذاہب کو شامل رکھا گیا ہے۔اور ملک کی حساس مذہبی و ثقافتی صورت حال کے پیش نظر یہ تیسرا پہلو ہی سب سے زیادہ سنگین ہے۔
اس بل میں بہت ہی دلکش پہلو یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش مسلم ممالک ہونے کی وجہ سے وہاں پرغیر مسلموں پر مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم ہوتا ہے، اس لئے وہاں سے ہجرت کرکے آنے والے غیرمسلموں کو پناہ دی جائے گی۔اسی پناہ دینے اور انسانی حقوق کی دہائی کے لبادے میں اس بل کے ذریعے یہاں پر مذہبی بنیادو پرظلم وستم شروع کیا جائے گا، جس کو شکست دینے کی بات اس بل کے مقاصد میں کہی جارہی ہے۔
آخر میں میمورنڈم میں یہ کہا گیا ہے کہ چونکہ اکثریت رکھنے والی پارٹی اپنے انتخابی منشور کا ایک اور وعدہ پورا کرنے جارہی ہے،اس سے پوری مسلم ملت جو کہ مذہبی اقلیت میں ہے، وہ انپے آپ کو خوف زدہ اور غیر محفوظ محسوس کررہی ہے۔جبکہ اسی خاص مذہبی اقلیت کے خلاف موجودہ حکومت ایک کھلا ہوا انتقامی جذبہ رکھتی ہے۔اور اپنی بدنیتی پر مبنی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے دن بدن تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔
اس لئے درخواست کی گئی ہے کہ دستور نے سرکاری حاکم کے طور پر جو اختیارات دئے ہیں اس کا استعمال کرتے ہوئے مسلم قوم کی ہراسانی اور خوف زدگی کو اعلیٰ حکام تک پہنچایا جائے اور اس بل کو روکنے کی پوری کوشش کی جائے۔تاکہ مذہب، ذات اورطبقات کی تفریق کے بغیر عام شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی جاسکے۔