شہریت ترمیمی بل سے مسلمان پریشان، بڑی مسلم جماعتیں اورتنظیمیں خاموش!
بنگلورو،8/دسمبر (ایس او نیوز) نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی بی جے پی حکومت ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے کمربستہ آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل میں مسلسل مصروف ہے۔ طلاق ثلاثہ قانون اور کشمیر سے دفعہ 370کے خاتمہ سے بظاہر ملی کامیابی کے بعد مودی حکومت کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ وہ ہندوستان کو مسلمان سے پاک بنانے میں اہم رول ادا کررہی ہے لیکن مسلم قیادت کو جس جمہوری طاقت و قوت کے ساتھ سڑکوں پر آنا چاہئے تھا وہ نہیں آپارہی ہے۔ چند کو چھوڑ کر بڑی بڑی مسلم جماعتیں اور تنظیمیں اپنی قوم کے تحفظ پر خاموش نظر آرہی ہیں۔ ایسے وقت میں جب کہ ملک انتہائی مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے معیشت کی رفتار سست ہوگئی ہے ملک ایک بار پھر فاقہ کشی کے قریب پہنچ چکاہے، روزگار کم ہوتا جارہا ہے، صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ ایسے میں ان مسائل پر توجہ دینے کی بجائے مودی حکومت صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے ایجنڈے پر گامزن ہے۔ اسے ملک کے مسائل یا عوام کی پریشانیوں سے تعلق نہیں وہ صرف آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کو ہی اپنا فریضہ سمجھتی ہے۔ شہریت ترمیمی بل کو کابینہ کی مرضی ملنے کے بعد امید کی جارہی ہے کہ پیرکو پارلیمان میں پیش کردیا جائے گا جس کے لئے بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں نے وھپ بھی جاری کردیا ہے۔ ایسے میں سکیولر کردار کی حامل پارٹیوں کا ایک بار پھر سخت امتحان ہے کہ وہ راجیہ سبھا میں اکثریت ہونے کی وجہ سے کیا اس متنازع اور مسلم مخالف بل کو نا منظور کرانے میں اہم رول ادا کریں گی یا پھر طلاق ثلاثہ قانون کی طرح پارلیمان سے واک آؤٹ کرکے مودی حکومت کی بھرپور مدد کریں گی۔ ان سب کے درمیان سب سے اہم سوال یہ ہے کہ شہریت ترمیمی بل جس قوم کے خلاف ہے اس کی قیادت اپنی قوم کے تحفظ کے لئے کیا کررہی ہے؟ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے سڑکوں سے لے کر پارلیمان تک یہ اعلان کیا ہے کہ شہریت ترمیمی بل میں افغانستان،پاکستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے سکھ، جین، بدھسٹ، پارسی اور ہندو مذہب کے پناہ گزینوں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی اور مسلمان پناہ گزینوں کو کسی بھی صورت میں ہندوستان میں رہنے نہیں دیا جائے گا۔ یعنی یہ بات مرکزی حکومت کی طرف سے واضح کردی گئی ہے کہ شہریت ترمیمی بل کے بعد پورے ملک میں این آر سی کو نافذ کرتے ہوئے صرف مسلمانوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس واضح اعلان کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں ملک بدر ہونے اور تکالیف میں مبتلا ہونے کا خوف بڑھ تو رہا ہے لیکن اس کی قیادت اس خوف سے باہر نکالنے میں منظم کردار ادا نہیں کرپارہی ہے۔ مسجد اللہ کا گھرہے، اس روئے زمین پر اس کا تحفظ اور اس کی دیکھ بھال ایمان والوں کی ذمہ داری ہے لیکن کیا عام مسلمانوں کا تحفظ، خاص مسلمانوں پر فرض نہیں۔ اپنی قوم کی حفاظت کرنے کی شریعت اسلامیہ اجازت نہیں دیتی۔ مسلمانوں کے جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری ملک کے حکمراں طبقہ پر ہے لیکن اگر وہ اعلانیہ طور پر ایک بھی مسلمان کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے تو اس کی حفاظت کی ذمہ داری کیا مسلم قیادت اور مسلمانوں کی بڑی بڑی تنظیموں اور جماعتوں پر نہیں ہے۔ بابری مسجد کے تحفظ میں کروڑوں کروڑ روپئے خرچ کرنے والی جمعیۃ العلماء ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کے خلاف پارلیمان میں پیش ہونے والے شہریت ترمیمی بل پر خاموش کیوں ہے؟ کیوں نہیں وہ مسلمانوں کے تحفظ کے لئے مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف جمہوریت کے اصول وضوابط کے مطابق سڑکوں پر احتجاج کرکے اپنے غصہ کا اظہار کرتی ہیں۔ کیوں نہیں وہ اس متنازع بل کے خلاف ہر ضلع میں ذمہ داروں کو میمورنڈم پیش کرنے کے لئے مسلمانوں کو ابھارتی ہیں۔ کیا اس معاملے میں قدم اٹھانے سے مذکورہ مسلم تنظیموں اور جماعتوں کو ملک کا قانون روکتا ہے یا شریعت اسلامیہ اس کے آڑے آتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کی مسلم تنظیمیں اور جماعتیں مستقبل ناشناس ہوتی جارہی ہیں۔ انہیں نہ تو مسلم قوم کی فکر ہے اور نہ اس کے جان ومال کی اور نہ ہی ہندوستان جیسے خوبصورت جمہوری ملک کی۔ حالانکہ انہی کے اکابرین نے ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لئے جان ومال کی بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ آخر کیوں مسلم قیادت متنازع اور متعصب شہری بل پر اپنی رائے کھل کر نہیں رکھتی۔ 1925میں آر ایس ایس نے جس ہندوستان کا خواب دیکھا تھا کہ ایک ایسا ملک ہوگا جہاں ہندو راج کریں گے اور انہی کا غلبہ ہوگا۔ایک ایسا ملک ہوگا جس میں مسلمانوں کو ملک بدر کردیا جائے گا یا پھر انہیں دوسرے درجہ کے شہری کی حیثیت سے رہنے پر مجبور کیا جائے گا۔