افغانستان سے امریکہ کا انخلا، چین کی توقعات اور پریشانی
نیویارک، 24/اگست (آئی این ایس انڈیا) افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی سے چین کی طویل عرصے کی امید بر آئی ہے کہ اس کے علاقائی حریف کا اثر و رسوخ عین اس کے ہمسائے میں کم ہو رہا ہے۔ مگر ساتھ ہی ان اندیشوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ ایسا نہ ہو امریکہ کے جانے سے وسط ایشیاء میں عدم استحکام کا خطرہ پیدا ہو جائے اور وہ بڑھتے ہوئے چین کے مسلم اکثریت والے صوبے سنکیانگ تک پہنچ جائے۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے سے چین کے لئے اس ملک میں سیاسی اور اقتصادی مواقع ضرور پیدا ہوئے ہیں جن میں افغانستان کے معدنیات کے ذخائر کو مزید بڑھانا شامل ہے اور اس کے علاوہ چین کہہ چکا ہے کہ وہ اس ملک کی تعمیرِ نو میں مدد کے لئے بھی تیار ہے۔
مگر ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان تمام فوائد کے حصول کے لئے استحکام شرط ہے اور امریکہ کے انخلا کا فوری نتیجہ عدم استحکام سے کم نہیں ہے۔
لندن میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں اس خطے کے امور کے ماہر رافیلو پینٹوچی کہتے ہیں کہ چین، امریکہ کے ناقابلِ بھروسا ہونے اور اس کی ناکامی کا بیانیہ استعمال کرتے ہوئے ظاہر کر سکتا ہے کہ وہ ایک بہتر متبادل ہے مگر ان کے خیال میں حقیقت میں ایسا فی الوقت ہوتا نظر نہیں آتا۔
بہت سے دیگر ممالک کی طرح چین کو بھی طالبان کی قیادت والے افغانستان سے دہشت گردی کے ممکنہ خطرات پر تشویش ہے۔ بیجنگ بارہا طالبان سے کہہ چکا ہے کہ افغانستان کو ان عسکریت پسندوں کی سرزمین نہیں بننا چاہیے جو سنکیانگ سے حملے کریں جیسا کہ اسامہ بن لادن نے اسے 9/11 کے حملوں کے لئے استعمال کیا تھا۔
ایک اور انتہائی قریبی خطرہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عسکریت پسندی پاکستان اور وسط ایشیا میں داخل ہو جائے جہاں چین نے اتحاد قائم کرنے کی خاطر بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
لی وی چائنا انسٹی ٹیوٹ آف کنٹیمپوریری انٹرنیشنل ریلیشنز سے ریٹائرڈ بین الاقوامی سکیورٹی کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افغان طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گرد فورسز سے قطع تعلق کر لیں گے مگر ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ وہ ایسا کیسے کریں گے کیونکہ ابھی وہ باضابطہ طور پر اقتدار میں نہیں آئے۔
امکان یہ بھی ہے کہ طالبان کے مذہب کی بنیاد پر قائم فلسفے اور چین میں کمیونسٹ پارٹی کے مذہب سے لاتعلق اقتدار کے درمیان کوئی قدر مشترک نہ ہو۔ تاہم یہ بات طالبان قیادت سے رابطے میں چینی لیڈروں کے مانع نہیں رہی۔
چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی نے گزشتہ ماہ طالبان کے سیاسی لیڈر ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان کے ایک وفد کی میزبانی کی تھی اور استحکام کے لئے چینی توقعات کے اظہار کے ساتھ تشدد اور دہشت گردی کے خطرات کے خاتمے پر زور دیا تھا۔