کیا انٹرنیٹ اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو ’آزادی اظہار رائے“کا حصہ سمجھا جاسکتا ہے؟ انصاف کی فراہمی میں تاخیرکا اصل سبب کیا ہے ؟ کیا کہتے ہیں چیف جسٹس بوبڑے ؟
بنگلورو،13/جنوری (ایس او نیوز/ایجنسی) عدلیہ کے سامنے کئی چیلنجس ہیں جس میں انٹرنیٹ اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال جیسے نئے تصورات کو آئین کی ”آزادی اظہار رائے“کا حصہ سمجھے جانے والے معاملات بھی شال ہیں، ان خیالات کا اظہار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شرداروندبوبڑے نے کیا۔
بروزہفتہ کرناٹک اسٹیٹ جوڈیشل آفیسرزکی جانب سے جی کے وی کے کے آڈیٹوریم میں منعقدہ ریاستی سطح کی 19/ ویں عدلیہ آفیسرز کی دوروزہ کانفرنس کا افتتاح کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ کشمیر میں انٹرنیٹ پر عائد پابندی سے متعلق عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ہم نے (سپریم کورٹ) یہ فیصلہ سنایا کہ انٹرنیٹ کا استعمال آزادی اظہار رائے کاحصہ ہے۔اس قسم کے بہت سارے مسائل عدلیہ کے سامنے چیلنجس بنے ہوئے ہیں،مثال کے طورپر لاؤڈاسپیکراستعمال کرتے ہوئے شادی ہالوں میں اونچی آواز میں میوزک سننا، مندروں اورمساجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرنا،انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ چیلنج ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال آیا آزادی اظہار رائے کاحصہ مانا جائے یا نہیں؟ چیف جسٹس بوبڑے نے عدلیہ کی خصوصیت بتاتے ہوئے کہا کہ مقننہ اورانتظامیہ کو جوخصوصیات حاصل نہیں وہ خصوصیت اوراختیار عدلیہ اور جج صاحبان کو حاصل ہے، مقننہ اگرقانون بناتا ہے تو انتظامیہ اس پرعمل درآمد کے رہنما خطوط ترتیب دیتا ہے،لیکن جج صاحبان موقع ومناسبت کے اعتبار سے قانون کے دائرہ کار میں فیصلہ سناکر انصاف فراہمی کاکام کرتے ہیں۔
دستورمیں الفاظ کی شکل میں موجود آئینی اصولوں کو حقیقی شکل میں ڈھالنے کی ذمہ داری جج صاحبان کی ہوتی ہے۔جج صاحبان کوچاہئے کہ وہ اپنی اس منفردخصوصیات اوراختیارکا احساس کریں۔ بوبڑے نے مزید کہا کہ یہ یاد رکھناچاہئے کہ مناسب معلومات،ہنرمندی اورتجربہ کی کمی وقلت بھی انصاف کی فراہمی میں تاخیرکا باعث بن سکتی ہے۔
ریاستی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اے ایس اوکھا نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاستی عدلیہ نے انتہائی نیک نیتی سے اپنی خدمات انجام دی ہیں اورابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے،تاہم ہمیں یہ نہیں بھولناچاہئے کہ تنخواہ یا وظیفہ کی شکل میں جورقم ہم ججس کومل رہی ہے وہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے،اس لئے ہم عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔اب آئندہ ماتحت عدالتیں، نچلی عدالتوں کے بجائے ٹرائل اورسیول کورٹ کے طورپر پہچان بنائیں گی۔
اجلاس میں موجود وزیراعلیٰ بی ایس ایڈی یورپا نے کہا کہ عدلیہ کے انفراسٹرکچرکی ترقی کوترجیحی طورپرفوقیت دی جائے گی،عدلیہ کے افسروں کے مختلف مطالبات کی تکمیل کے سلسلہ میں غورکیاجارہا ہے،انہوں نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین کی بازآبادکاری کے لئے ریاستی لیگل سرویس اتھارٹی کی مالی امداد ناقابل فراموش ہے۔
پروگرام میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان موہن شانتاگوڈا، جسٹس عبدالنذیر، اے ایس بوپنا، کرناٹک جوڈیشل افسروں کی تنظیم کے صدرملیکارجن گوڈا،جنرل سکریٹری اے سوم شیکھرو دیگر معززین شریک رہے۔